ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2005 |
اكستان |
|
احکام کو چھوڑ کر کہیں اورسے ہدایت کا طالب ہوگا، سمجھو کہ یقینا ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ نے گمراہی پر چلتا چھوڑ دیاہے ۔ اور جو جابر حکمران حکومت پر آجائے اورقرآن پاک کے احکام کو چھوڑ کر دوسرے احکام سے حکومت چلائے تو اللہ تعالیٰ اسے ہلاک وبرباد کردے گا، یہ قرآن پاک ذکرحکیم ہے (حکمتوں والا کلام الٰہی ہے )اور واضح کردینے والا نور ہے ۔یہی (اس پر عمل کرنا) سیدھا راستہ ہے اس میں تم سے پہلے لوگوں کے حالات ہیں اورتمہارے بعد کے دَور کی خبریں ہیں اورتمہارے آپس میں کرنے کے فیصلے ہیں ۔یہ پکا فیصلہ کُن کلام ہے مذاق نہیں۔ یہی وہ کلام ہے کہ جسے جب جنات نے سُنا تو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب کلام پاک سنا ہے جو بھلائی کا راستہ دکھاتا ہے۔ اوریہ کلام باربار پڑھنے سے بھی پرانا نہیں لگتا ۔اس کے پڑھنے میں جو سبق حاصل ہوتے رہتے ہیں وہ کبھی ختم نہیں ہوتے اور اس کے عجائبات لافانی ہیں،پھر حضرت علی نے حارث سے فرمایا : اے ا عور! یہ حدیث لے (اوریادرکھ)''۔ مفسرین قرآن کریم کے لیے سیّدنا فاروق اعظم کا بتلایا ہوا زرّیں اصول : قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ کَلَامُ اللّٰہِ فلَا یَغُرَّنَّکُمْ مَاعَطَفْتُمُوْہُ عَلٰی اَھْوَائِکُمْ ۔ (سنن الدارمی ص ٤٤١) ''سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایاکہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ،تو اسے اپنی خواہش کے مطابق موڑ کر مطلب نکال کر اپنے کو دھوکہ میں نہ ڈالنا''۔ اہل باطل قرآن پاک کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہیں اس سے سب بچیں۔تفسیر احادیث کی روشنی میں ہوا کرتی ہے ،مفسرین کرام نے اُصول بھی مقرر فرمادیے ہیں اِن کی پابندی ضروری ہے ۔ قرآن پاک پڑھنے پڑھانے اورقراء ت سیکھنے سکھانے کی فضیلت کے لیے احادیث ملاحظہ فرمائیں : (٧) عَنْ عَلِیٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہ ۔ (سنن الدارمی ص ٤٣٧ ج٢) ''حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ جناب رسالتمآب ۖ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں