ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2005 |
اكستان |
|
اَرْبَعَة حُرُم '' یعنی ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت (عظمت)والے ہیں ، ان کو حرمت والا دومعنٰی کے اعتبار سے کہا گیا ۔ایک تو اس لیے کہ ان میںقتل وقتال حرام ہے، دوسرے اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اورواجب الاحترام ہیں، ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ ان میں سے پہلا حکم تو شریعت ِاسلام میں منسوخ ہو گیا مگر دوسراحکم احترام وادب اوراِن میںعبادت گزاری کا اہتمام اسلام میں بھی باقی ہے۔''ذٰلکَ الدِّینِ الْقَیِّمُ '' یہ ہے دین مستقیم یعنی مہینوں کی تعیین اورترتیب اوران میں ہر مہینہ خصوصاً اشہر حرم (چار عظمت والے مہینوں )کے متعلق جو احکام ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ کے حکم ازلی کے مطابق رکھنا ہی دین مستقیم ہے ،اس میں اپنی طرف سے کمی بیشی اورتغیروتبدل (جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں کمی کی جاتی تھی)کج طبعی کی علامت ہے۔'' فَلا تَظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسَکُمْ '' یعنی ان مقدس مہینوں میں تم اپنا نقصان نہ کر بیٹھنا کہ ان کے معینہ احکام واحترام کی خلاف ورزی کرو ، یا ان میں عبادت گزاری میں کوتاہی کرو۔ امام جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا ہے کہ ان میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ (چار) متبرک مہینوں کا خاصہ یہ ہے کہ ان میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے اُس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اورہمت ہوتی ہے ،اسی طرح جو شخص کوشش کرکے اِن مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اوربرے کاموں سے بچا لے تو باقی سال کے مہینوں میں اُس کو اُن برائیوں سے بچنا آسان ہو جاتاہے ، اس لیے ان مہینوں سے فائدہ نہ اُٹھانا ایک عظیم نقصان ہے ۔(معارف القرآن ج ٤ ص ٣٧١ تا ٣٧٣) حضرت شاہ ولی اللہ قدس اللہ سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ ملتِ ابراہیمی میں یہ چار مہینے ادب اوراحترام کے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اصل حکم کو یعنی اِن کی حرمت کو برقرار رکھا اور مشرکین ِعرب نے جواِس میں تحریف کی تھی اُس کی نفی فرمادی۔ (معارف القرآن ادریسی ج ٣ ص ٤٣١) ابن ابی بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے حجة الوداع کے موقعہ پر اپنے منٰی کے خطبہ میںارشاد فرمایا کہ : ''(اس وقت) زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت پر آگیا ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پید اکیا تھا (یعنی اب اُسکے دنوں اورمہینوں میں کمی زیادتی نہیں ہے جو جاہلیت کے زمانے میں مشرک کیا کرتے تھے ۔اب وہ ٹھیک ہو کر اُس طرز پر آگئی ہے جس پر ابتداء اوراصل میں