ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
بھی ہم آپ کی ذات والا صفات کو اپنانمونہ مانتے ہیں''۔ پہلی نشست کا اختتام یاد گارِاسلاف جے یو آئی پنجاب کے امیر حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب کی دُعا پر ہوا۔ دوسری نشست پون گھنٹہ کے وقفہ کے بعد تلاوتِ کلام پاک سے شروع ہوئی ۔ حضرت مدنی کے تلمیذ شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد یوسف خان آف پلندری آزاد کشمیر نے اپنی گفتگو میں کہا : ''امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد اپنے تعزیتی پیغام میں کہتے ہیں کہ ہم حضرت مدنی کے دل کو خدا کی طرف ہر وقت جھکا ہو اپاتے ہیں۔ ایک ایک مجلس میں کئی کئی ہزار لوگ بیعت ہوئے تھے ۔ یہ بات ہمارے شیخ کے مقبول ہونے کی عظیم علامت ہے۔ ہمارے حضرت میں جنتیوں کی علامتیں بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں ۔ہم دعوٰی سے کہہ سکتے ہیں جہاں جہاں مدارس میں حدیث کی خدمت ہورہی دو حصہ حضرت کے شاگرد ہیں بلاواسطہ یا بالواسطہ'' ۔ حضرت مدنی کے تلمیذ علامہ ڈاکٹرخالد محمود آف لندن نے سیمینار منعقد کرنے پر بھر پور مبارکباددی اوردِلسوزی سے آپ کی تعلیمات کے حوالے سے گفتگو کی ۔ انہوں نے کہا: ''دارالعلوم دیوبند وہ مرکز ہے جس نے اپنے خیالات پیش نہیں کیے اُوپر سے روایات لیں اوراسی کو آگے تک پہنچایا۔ دارالعلوم دیوبند کو حضرت مدنی کی نسبت سے نسبت ِحسینی ملی ۔ قربانی دینے میں ، کفن ساتھ رکھنے میں، سرکٹانے میں ،جو تاریخ حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ کی تھی وہ کسی کی نہیں تھی۔ ہندوستان کے بڑے بڑے مدارس نے یہ فیصلہ کیا دارالعلوم دیوبند کے احترام میںدورہ شروع نہیں کریںگے ۔تمام کتابیں اپنے مدارس میں پڑھاتے لیکن دورہ حدیث کی کتابیں حضرت مدنی کے قدموں میں جاکے پڑھتے ۔ بزرگان ِدین کو خراجِ تحسین پیش کرنا یہ ہے کہ ہم اُن کے تقشِ قدم پر چلیں'' ۔ حضرت مدنی کے تلمیذ، مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید صاحب سواتی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ:'' شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمدمدنی عالم اسلام کی اُن عظیم شخصیات میں سے تھے جنہوں نے مشکلات اور مصائب کے دور میں اُمت ِمسلمہ کی راہنمائی کی اوردینی ، علمی، رُوحانی اورسیاسی ہر محاذپر علماء حق کی جرأت مندانہ قیادت فرمائی۔ اپنے شیخ مولانا محمود حسن کی طرح حضرت مدنی بھی علم ،احسان اورجہاد کے تینوں اوصاف سے پوری طرح متصف اور ان صفات ِحسنہ کے جامع تھے۔ آج جبکہ دنیائے اسلام کی صورتِ حال یہ ہے کہ برطانیہ ، فرانس اور دیگر یورپی استعماری طاقتوں سے