ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
نے ''شیخ الاسلام حضرت مولانا مدنی کی شخصیت کے روشن نقوش''کے عنوان سے اپنا وقیع مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ :'' شیخ الاسلام ، قطب عالم ، حضرت مولاناسیّد حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ کی وفات کو سینتالیس سال سے زائد کاعرصہ گزر گیا ہے لیکن آج بھی آپ کی یاد کے تابندہ نقوش عوام وخواص کے دلوں پر ثبت ہیں۔ جب آپ کا اسمِ گرامی کسی مجلس میں لیا جاتا ہے تو نگاہیں عقیدت واحترام سے جھک جاتی ہیں اوردل عظمت وجلال سے معمور ہو جاتے ہیں۔ شیخ الاسلام کا لقب ایک ایسی بلند پایہ شخصیت کا عنوان بن گیا ہے جو اپنے دور میں ان علمی، عملی اور رُوحانی کمالات کامجموعہ تھی جن کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ علمی گیرائی ، زہد وتقوٰی ، اخلاقِ فاضلہ ، رشدوہدایت اور معرفت ِالٰہیہ اورمحبت ِایزدی کا وہ پیکرِ محسوس جس نے پون صدی سے زیادہ خلق خدا کے درمیان رہ کر نبوی سیرت وکردار کا شاندار عملی نمونہ دُنیا والوں کے سامنے پیش کرکے یہ ثابت کردکھایا کہ عرفان ومحبت سے سرشار لوگ جب دنیا میں نورِ ہدایت کی کرنیں پھیلانے پر آتے ہیں اورمخلوق کی نفع رسانی کا جب بیڑا اُٹھاتے ہیں تو دنیا کی کوئی رُکاوٹ اُن کے لیے رُکاوٹ نہیں رہتی اورزمانہ کے ہزار نشیب وفراز اُن کے پائے استقلال میں کوئی ادنیٰ سی جنبش پیدا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ حضرت مولاناسیّد حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ ایک معمولی غیر معروف طالب علم ''حسین احمد'' سے بڑھکر'' شیخ الاسلام'' اور''شیخ العرب والعجم'' کیسے بنے ؟ آپ کی شخصیت سازی کے بنیادی عوامل کیا تھے؟ جب اس موضوع پر غور کیا جاتا ہے تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ آپ کی حیات مقدسہ ان اسباب وعوامل سے پوری طرح آراستی تھی جو کسی بھی شخصیت کو بفضلِ خداوندی عزت ومرتبہ اورمقام ومنصب عطا کرنے میں سب سے زیادہ دخیل ہوتے ہیں۔ آپ کی شخصیت کو نکھارنے میں بتدریج درج ذیل عوامل نے بنیادی کردار ادا کیا : (١) تعلیم (٢) تزکیہ (٣)علمی انہماک (٤)اُستاذ کی خدمت (٥)ملت کی فکر (٦)جذبۂ خدمت (٧) اخلاقِ فاضلہ انہوں نے آخر میں دعوتِ فکر دیتے ہوئے کہا :''اس مختصر مضمون میں حضرت شیخ الاسلام کی شخصیت کے جن روشن نقوش کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ اس قابل ہیں کہ ہم سب ان کو اپنی زندگی میں نمایاں کرنے کی کوشش کریںاور حضرت شیخ الاسلام سے اپنے قابلِ فخر رُوحانی انتساب کاحق ادا کرنے کی جدوجہد کریں۔ اس بارے میں ہمارا عزم اورپختہ ارادہ ہی درحقیقت حضرت رحمة اللہ علیہ کی شان میں سب سے بڑا خراجِ عقیدت ہوگا۔ ہمارے ہر عمل سے یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ ہم صرف زبانی حد تک ہی مدنی نسبت کے حامل نہیں بلکہ سیرت و کردار میں