ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
(١) ایک یہ ہے کہ نفس ِاستخارہ کافی ہے اور اسی پر اعتماد کرتے ہوئے آدمی جس کسی پہلو کواختیار کرے گا انشاء اللہ خیر اُسی میں ہوگا ، کیونکہ استخارہ ایک دُعاء ہے ، بندہ اپنے پروردگار سے استخارہ کے ذریعہ درخواست کرتا ہے کہ اللہ اس کے حق میں خیر اوربھلائی کو مقدر فرمائے ، توضروراللہ اس کے حق میں بہتری اوراس کے حال کے مناسب امر کو اُس کے لیے منتخب اورسہل فرما دیتے ہیں۔ (٢) دوسری بات یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد دل کا میلان اوررُجحان جس پہلو پر ہو اُسی کو اختیار کرناچاہیے، اس رائے کی تائید ایک ضعیف حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کو ابن السنی نے حضرت انس سے روایت کیا ہے : عن انس قال :قال رسول اللّٰہ ۖ اذا ھممت فاستخر ربک سبعاً ثم انظر الی الذی یسبق الی قلبک فان الخیر فیہ ۔ (بحوالہ معارف السنن ٤/٢٧٨) ''حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول ۖ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم کسی کام کاا رادہ کرو تو اپنے سے سات دفعہ استخارہ کرلو پھر جس چیز کی طرف تمہارا ذہن متوجہ ہو اُسی کی طرف توجہ کرلو کیونکہ خیر اسی میں ہے''۔ علماء کی ایک بڑی تعداد کا رُجحان بھی اسی رائے کی طرف معلوم ہوتا ہے اورانہوں نے اس رائے کو اختیار کیا ہے۔ (دیکھئے عمدة القاری ٤/٢٢٥، مرقاة المفاتیح٣/٢٠٦، بذل المجھود ٢/٣٦٦، معارف السنن ٤/٢٧٨، بحرالرائق ٢/٥٢، شامی ١/٤٦١،اعلاء السنن ٧/٤٢، معارف الحدیث ٣/٣٦٥) استخارہ میں خواب دیکھنا ضروری نہیں ، اگر کسی کو خواب آجائے تو یہ اس کے قلبی رُجحان کے لیے مددگار ثابت ہوگا ،چنانچہ مشائخ اس سلسلہ میں کہتے ہیں کہ اگر کوئی خواب میں سفید یا سبزرنگ کی چیز دیکھ لے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس معاملہ میں خیر ہے اور اگر کالا یا سرخ رنگ دیکھ لے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ اس کام سے اجتناب اورپرہیز کرے۔ (معارف السنن ٤/٢٧٨) استخارہ کن امور میں کیا جائے ؟ استخارہ ایسے معاملوں میں کیا جائے گا جس کے مفید اوردرست پہلو سے انسان واقف نہ ہو ، اگر وہ معاملہ