ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
'' رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اللہ کے حضور میں کوئی کلام ''کلام اللہ'' سے بڑھ کر نہیں ہے اور نہیں لوٹایا بندوں نے اللہ کی طرف کوئی ایسا کلام جو اُسے اپنے کلام سے زیادہ محبوب ہو''۔ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ نے ایک روایت جو حضرت عطیةبن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نقل کی ،اس میں فرمایا گیاہے۔ مَا تَکَلَّمَ الْعِبَادُ بِکَلَامٍ اَحَّبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ کَلَامِہ وَمَا اَنَابَ الْعِبَادُ اِلَی اللّٰہِ بِکَلاَمٍ اَحَبُّ اِلَیْہِ مِنْ کَلَامِہ بِالذِّکْرِ۔ (درمنثور ص٣٦٦ ج ٥) '' نہیں تکلم کیا بندوں نے کسی ایسے کلام کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ کو اپنے کلام کی بہ نسبت زیادہ محبوب ہو،اور نہیں انابت حاصل کی بندوں نے ذکر کے ذریعہ اللہ کے حضور میں کسی ایسے کلام کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ کو اپنے کلام کی بہ نسبت زیادہ محبوب ہو''۔ قرآن ِپاک اورذاتِ الٰہی : ایک دوسری روایت میں جو بیہقی اور حاکم کے حوالہ سے تصحیح کے ساتھ نقل کی ہے، یہ بھی آتا ہے کہ اس کلام کا مصدر خود ذات ِباری تعالیٰ ہے۔یہ روایت حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی ہے ، اس کا آخری حصہ یہ ہے : فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ۖ) اِنَّکُمْ لَنْ تَرْجِعُوْا اِلَی اللّٰہِ لِشَیٍٔ اَحَبُّ اِلَیْہِ مِنْ شَیٍٔ خَرَجَ مِنْہُ یَعْنِی الْقُراٰنَ ۔ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا تم اللہ کا قرب حاصل نہیں کرسکتے کسی چیز سے جو اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہو بہ نسبت قرآن کے''۔ (٢) قرآن حکیم کی یہ خصوصیت ہے کہ اُس کے حروف بھی معین کرکے نازل فرمائے گئے ہیں اورعربی زبان میں اُتاراگیا ہے، ارشاد ہے ...... اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰنًاعَرَبِیًّا '' ہم نے اس کو اُتارا ہے قرآن عربی زبان کا'' ارشاد ہوا : کِتَاب اُحْکِمَتْ اٰیاتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ۔ ''یہ کتاب ہے کہ جانچ لیا ہے اس کی باتوں کو پھر کھولی گئی ہیںایک حکمت والے خبردار کے پاس سے''۔ (٣) اور کیونکہ یہ بلاشبہہ خدا کا کلام ہے اس لیے یہ بھی دعوٰی کیا گیا کہ اس جیسا کلام کوئی نہیں لا سکتا