ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
دُعا کے فضائل وترغیب میں رسول اللہ ۖ کے ارشادات (حضرت مولانا مفتی محمد ارشاد صاحب القاسمی) دُعا کا حکم ، دُعا عبادت ہے : حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی پاک ۖ سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ ۖ نے فرمایا: ''دعاعبادت ہے ''پھر (اس کی تائید میں ) یہ آیت تلاوت کی : وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ ۔ (سورة المومن آیة ٦٠) ''اورتمہارے رب نے کہا مجھ سے دعا کرو، میں قبول کروں گا ۔ یقینا وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبّر کرتے ہیں ذلت کی حالت میں جہنم میں داخل ہوں گے''۔ (ابو دائود ص٢٠٨ ترمذی باب الدعا ٧٨٧ جلد ٢) ''یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِی'' معنی میں ''یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ دُعَائِیْ'' کے ہے ۔ اس لیے کہ دُعا بھی عبادت کی قسم ہے بلکہ افضل العبادات ہے۔ دعاخضوع کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اورعبادت کا مقصد خضوع اورمسکنت ہے، اس لیے دُعا عبادت ہے۔ (رُوح المعانی صفحہ ٨١ ج٢٤) اس آیت میں دُعا کے ترک کرنے والوں کو جہنم کی وعید سُنائی گئی ہے وہ بصورت ِاستکبار ہے یعنی جو شخص بطورِ استکبار اپنے آپ کو دُعا سے مستغنی سمجھ کر دُعا چھوڑدے، یہ علامت کفر کی ہے اس لیے وعیدِ جہنم کا استحقاق ہوا۔ ورنہ فی نفسہ عام دُعائیں فرض و واجب نہیں ، ان کے ترک سے کوئی گناہ نہیں ۔ البتہ باجماع علماء مستحب اور افضل ہے ،اور حسبِ تصریح حدیث موجب ِبرکات ہے۔ (معارف القران ص ٦١١ ج٧ ، فتح الباری ص٩٥ ج١١) دُعا کا حکم اس اُمت کی خصوصیت ہے : حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ ۖ نے فرمایا : ہماری اُمت کو تین چیزیں ایسی