ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
''یا اللہ ! میں آپ سے خیر چاہتا ہوں بوجہ آپ کے علم کے، اور قدرت طلب کرتا ہوںآپ سے بوجہ آپ کی قدرت کے، اور مانگتا ہوں میںآپ سے آپ کے بڑے فضل میں سے، کیونکہ آپ قادر ہیں اورمیں عاجز ہوں، اور آپ عالم ہیںاور میں جاہل ہوں، اورآپ علام الغیوب ہیں۔ یا اللہ ! اگر آپ کے علم میں یہ کام بہتر ہے میرے لیے دین میں اورمیری معاش میں اور میرے انجام کار میں توتجویز کردیجیے اور آسان کردیجیے اس کو میرے لیے، پھربرکت دیجیے میرے لیے اس میں۔ اور اگر آپ کے علم میں ہو کہ یہ کام برا ہے میرے لیے میرے دین میں اور معاش اور میرے انجام کار میں ،تو ہٹا دیجیے اس کو مجھ سے اورہٹا دیجیے مجھ کو اس سے، اورنصیب کردیجیے مجھ کو بھلائی جہاں کہیں بھی ہو، پھر راضی رکھیے مجھ کو اس پر ''۔ جب ''ھذا الأمر'' پرپہنچے تو جس کام کے لیے استخارہ کررہا ہے اُس کا خیال کرے۔ (متفق علیہ، بخاری ١/١٠٠ عن جابر ، مسند احمد رقم ٢٢٣٩١ عن ابی ایوب انصاری وفیہ ابن لھیعہ) فقہاء ومحدثین فرماتے ہیں کہ استخارہ کی دُعا پوری کرنے کے بعد قبلہ رُخ ہوکر باوضو سوجائے (شامی ١/٣٧١)علامہ نووی اورامام غزالی نے پہلی رکعت میں سورةالکافرون اوردوسری رکعت میں سورة الا خلاص پڑھنے کی بات بھی کہی ہے۔ (عمدة القاری ٣/٢٢٥) ملاعلی قاری نے اس کے علاوہ پہلی رکعت میں '' وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَایَشَآئُ وَیَخْتَارُ ''(سورة القصص ٨)اوردوسری رکعت ''مَاکَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ ''(سورة الاحزاب ٣٦) پڑھنے کا معمول بھی نقل کیا ہے ۔ (مرقاة المفاتیح ٣/٢٠٦) اگر کسی شخص کو کوئی کام اچانک پیش آجائے اوراُسے اتنی مہلت نہ ہو کہ وہ مذکورہ بالا طریقہ پرا ستخارہ کرسکے تو وہ صرف دُعاء پر بھی اکتفا کرسکتاہے ۔ (اصلاحی خطبات ١٠/١٣٩) استخارہ کا نتیجہ : یہ ایک اہم مسئلہ ہے ، اس سلسلہ میں لوگ عموماً پریشانی اور اُلجھن کا شکاررہتے ہیں کہ استخارہ توکرلیا گیا لیکن ان پہلوئوں میںسے کس پہلو کا انتخاب ہمارے حق میں نافعل اورکامیابی کا ضامن ہوگا، اس کو کیسے پہچانا اور جانا جائے اور کن علامات کو پیش نظررکھتے ہوئے انتخاب اور عمل درآمد کیا جائے؟ اس سلسلہ میں دوطرح کی رائے ملتی ہیں :