ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
لہٰذا اگر کسی کو دِلی میلان حاصل نہ ہوتو وہ تین دفعہ استخارہ کرے، اگر پھر بھی حاصل نہ ہو تو سات دفعہ کرلے اور سات دفعہ کرنا بہتر ہے کیونکہ سات میںتین داخل ہے لیکن اگر کوئی تین ہی دفعہ کرے تو اس کو سات تو نہیں مل سکتا ، لہٰذا ایسے انداز پر عمل کرنا جس میں دونوں صورتیں مل جائیںاور دونوں طرح کی آراء پر عمل ہو جائے زیادہ مناسب ہے۔بلکہ بہتر یہ ہے کہ اگر اس کام میں تاخیر کی گنجائش ہوتو جب تک دل کا جھکائو کسی ایک پہلو پر نہ ہوجائے ، استخارہ کرتا رہے۔ (عمدة القاری ٤/٢٢٥) نتیجہ ٔ استخارہ کا شرعی حکم : استخارہ کرنے کے بعد جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے اُس پر عمل کرنا نہ تو واجب ہے اور نہ ہی سنت ، لیکن اگر کسی ایک جانب پورا رُجحان ہو جائے اور اس میں اپنی ذاتی خواہش کا کوئی دخل نہ ہو تو اِس صورت میں اس چیز کو اختیار کرلے کیونکہ اللہ نے ہمارے حق میں جو چیز متعین ومقدر کی ہوگی وہ ہمارے حق میں ضرور بہتر ہوگی ۔ (دیکھئے امدادالفتاوٰی ١/٥٩٩، ٦٠١) کسی شخص کا دُوسرے کے لیے استخارہ کرنا : بندہ اپنی ناقص تلاش وجستجو کے بعد لکھتا ہے کہ احادیث میں کسی اور سے استخارہ کروانے کا کہیں ذکرنہیں ملتا، اس سلسلہ میں بندہ نے جن اکابر علماء سے رجوع کیا اُن حضرات نے بھی کسی کتاب میں اس مسئلہ کے موجود ہونے سے متعلق اپنی لاعلمی کا اظہار فرمایا۔ البتہ بعض حضرات ِعلماء کا خیال یہ ہے کہ اس کی اجازت ہونی چاہیے، دلیل یہ ہے کہ استخارہ میں بندہ اللہ رب العزت سے خیر اور بھلائی کا خواستگار ہوتا ہے جو کہ ایک دُعا ہے ، اور دُعاء کی درخواست کسی سے بھی کی جاسکتی ہے جیسا کہ نبی کریم ۖ نے حضرت عمر سے کہا تھا ۔ درحقیقت استخارہ طلبِ خیر ہی کا نام ہے اوردُعا جس طرح خود کرسکتا ہے ، اسی طرح دوسروں سے بھی کروا سکتا ہے لیکن جب ہم استخارہ سے متعلق احادیث پر نظرڈالتے ہیں تو آپ ۖ خود استخارہ کے ضرورتمند کو اس بات کا حکم فرمارہے ہیں کہ وہ استخارہ کرے۔ چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری کو آپ ۖ نے بذاتِ خود استخارہ کرنے کی بات کہی ہے (مسند احمد ٢٢٤٩١)، نیز حضرات صحابہ میں سے کسی نے حضور ۖ سے یہ کہا ہو کہ آپ ہمارے لیے استخارہ فرمادیں، اس کا بھی بندہ کو کوئی ثبوت نہیں مل سکا ،اورنہ فقہاء نے ہی اس طرح کی بات کی کہ کوئی غیر کسی کے لیے استخارہ کررہا ہوتو اُس وقت وہ متکلم کے صیغوں کی جگہ کیا کہے۔