ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
یسا ہو جس کی بھلائی سے انسان واقف ہو جیسے عبادت اوردیگر احکام شرعیہ، یا پھر اُس کی برائی اُس پر واضح ہو مثلاً گناہ کے کام اور منکرات تو ان امور میں استخارہ کی حاجت ہے ہی نہیں ، کیونکہ صحیح یا غلط تو واضح اور ظاہر ہے، استخارہ جائز اورمباح چیزوں میں کیا جائے گا نیز ایسے واجبات میں بھی کیا جا سکتا ہے جس میں وقت اور کیفیت کی کوئی قید نہ ہو، تو ان کے وقت اور کیفیت کے سلسلہ میں استخارہ کیا جاسکتاہے۔ (حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص٣٩٨) دوسری بات یہ ہے کہ ہر جائز اورمباح کام میں بھی استخارہ نہیں کیا جائے گا بلکہ ایسے امور میں استخارہ کیا جائے گا جو کبھی کبھار پیش آتے ہیں اور جس کے لیے اہتمام بھی کیا جاتا ہو جیسے سفر ،نکاح وغیرہ ، لیکن ایسے امور اکا جو ہمیشہ لاحق رہتے ہوں اوراُن کے لیے کوئی اہتمام بھی نہ کیا جاتا ہو مثلاًعادةً کھانے اورپینے کی چیزیں توان امور میں استخارہ نہیں کیا جائے گا۔ المراد بالأمرمایعتنی بشانہ ویندر وجودہ ۔( بذل المجہود شرح ابی داؤد٢/٣٦٦) ۔ نماز استخارہ کن اوقات میں پڑھی جائے؟ احادیث ِشریفہ میں نمازِ استخارہ کے لیے کوئی خاص وقت وارد نہیں ہوا ۔ لہٰذا نماز ِاستخارہ اُن اوقات کے علاوہ جن میں نماز پڑھنا مکروہ ہے کسی بھی وقت ادا کی جا سکتی ہے ۔ (مرقات المفاتیح ٣/٢٠٦، عمدة القاری ٢٢٤٤) البتہ علامہ ابن عابدین شامی نے شرح الشریعہ کے حوالے سے مشائخ سے سنی ہوئی یہ بات نقل کی ہے کہ اس کے پڑھنے کے بعد باوضو سوجائے، اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نمازِ استخارہ سونے سے قبل ادا کرنا مجرب اور نافع ہے۔ وفی شرح الشریعہ المسموع من المشائخ ان ینام علی طھارة مستقبل القبلة بعد قراء ة الدعاء المذکور ۔ (شامی ١/٣٤١، معارف السنن ٣/٢٧٨) استخارہ میں تکرار : اگر کسی کو ایک دفعہ استخارہ کرنے سے کسی ایک پہلوپر دِلی رُجحان حاصل نہ ہو تو ایسا شخص رجحان حاصل ہونے تک استخارہ کرتا رہے، چنانچہ علامہ عینی نے امام نووی کی کتابُ الاذکار سے اُن کا یہ قول نقل کیا ہے کہ انسان تین دفعہ استخارہ کرے کیونکہ حضور ۖ سے تین دفعہ دُعائیں کرنا ثابت ہے۔ (عمدة القاری ٣/٢٢٥) بعض حضرات ِعلماء نے حضرت انس سے مروی روایت کی بناء پر سات دفعہ استخارہ کرنے کو پسند کیا ہے ۔ وینبغی ان یکررھا سبعاً لماروی ابن السنی عن انس ۔ (بذل المجہود ٢/٣٤٤)