ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
دی گئی ہیں جو اس سے قبل صرف نبیوں کو ملی ہیں ۔(جس میں سے ایک یہ ہے کہ )اللہ تعالیٰ جب کسی نبی کو مبعوث فرماتے تو اُن سے فرماتے تم دُعا کرنا میں تمہاری دُعا قبول کروں گا، اور اِس اُمت سے خطاب کیا تم دُعا کرو میں قبول کروں گا۔ (الجامع الاحکام القرآن ص٣٢٧ ج٨) حضرت کعب احبار سے بھی منقول ہے کہ پہلے حضرات انبیاء علیہم الصلٰوة والسلام کو حکم ہوتا تھا تم دُعا کرنا میں قبول کروں گا۔ یہاں اِس اُمت کو حکم ہے کہ دُعا کرو میں قبول کروں گا۔ حضرت خالد ربعی نے کہا اِس اُمت کے تعجب خیز (نوازشات) میں سے ہے کہ دُعا کا بھی حکم دیا اور قبولیت کا بھی وعدہ فرمایا۔ (قرطبی ص٣٢٧ ج٨) دُعا تقدیر کو بدل دیتی ہے : حضرت انس سے روایت ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا دُعا تقدیر کو رد کردیتی ہے۔ (الدعا ء نمبر ٢٩) حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا تقدیر نہیں بدل سکتی مگر دُعا سے، اور عمر میں زیادتی نہیں ہوسکتی مگر نیکی سے ۔(الدعا ء ص٣٠ ج٢ ، ترمذی) حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ۖنے فرمایا تقدیر نہیں ٹل سکتی مگر دُعا ہے۔ (حاکم ص٤٩٣، الدعاء ص٣١ج٢) فائدہ : تقدیر معلق دُعا سے بدل جاتی ہے جس کامطلب یہ ہے کہ اگر بندہ دُعا کرے گا تو یہ حکم اور فیصلہ شروع سے ہی خدانے دُعا پر معلق رکھ دیا ہے، محققین نے اس کا یہی مطلب لکھا ہے۔ دُعا عبادت کا مغز ہے : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک ۖ نے فرمایا : دُعا عبادت کامغز ہے۔ (ترمذی ، ترغیب ٤٨٢ ج٢) دُعا نصف عبادت ہے : حضرت انس سے مروی ہے کہ آپ ۖنے فرمایا :تمام نیکی کے اعمال نصف عبادت ہیں۔ جب اللہ پاک کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اُس کے دل کو دُعامیں لگا دیتے ہیں ۔ (مطالب عالیہ ص٢٢٦ج٣)