ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
رب ِکائنات سے رہنمائی اور ستفادہ کا ذریعہ استخارہ کی شکل میںاسے عطا کیا'' وکان أھل الجاھلیة اذاعنت لھم حاجة من سفر او نکاح اوبیع استقسموا بالأزلام ، فنھی عنہ النبیۖ لأنہ غیر معتمد علی اصل وانما ھو محض اتفاق ، ولأنہ افتراء علی اللّٰہ بقولھم : أمرنی ربی ونھانی ربی ، فعوضعھم ذالک الاستخارة ۔ (حجة اللّٰہ البالغة ٢/١٩) استخارہ کی حکمت : استخارہ کی حقیقت اوراس کی روح یہ ہے کہ جب بندہ کسی امر میں متحیر اور متردد ہوتا ہے اور کوئی صاف اور واضح پہلو شرعی اورعقلی ، معاشی اوردینی طورپر نظر نہیں آتا اوراس کا علم رہنمائی سے قاصر اور عقل بہتر اورصحیح کے انتخاب سے عاجز ہو جاتی ہے تو یہ بندہ اپنی درماندگی اور بے علمی کا احساس واعتراف کرتے ہوئے اپنے علیم کل اور قادرِمطلق مالک سے رہنمائی اورنصرت کا خواستگار ہوتا ہے اور اپنے معاملہ کورحیم وکریم ذات کے حوالہ کردیتا ہے کہ جو آپ کے نزدیک بہتر ہو بس اُسی کا فیصلہ اورانتخاب مجھ بندہ کے لیے کر دیجیے۔ استخارہ کی فضیلت : استخارہ کی فضیلت واہمیت اوربندوں کو اس کی حاجت وضرورت کے پیش نظر حضور اکرم ۖ استخارہ کی تعلیم اسی اہتمام سے فرماتے تھے جس اہتمام سے کہ آپ ۖ اُن کو قرآن کریم کی سورتوں کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ عن جابر قال کان رسول اللّٰہ ''یعلمنا الاستخارة فی الامور کما یعلمنا السورة من القرآن ''۔( بخاری ١/١٠٠) ''حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ ہمیں اپنے معاملات میں استخارہ اِسی اہتما م سے سکھاتے تھے جس اہتمام سے قرآن کریم کی سورتوںکی تعلیم فرماتے تھے''۔ ایک دوسری حدیث میں حضور اکرم ۖ کا ارشاد ہے کہ : ماخاب من استخار و لاند م من استشار ۔ (مجمع الزوائد ٨/٩٦) ''استخارہ کرنے والاکبھی ناکام ونامراد نہیں ہوتا''