ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
فرمایا ،جاتے ہوئے، سب سے پہلے میری طرف سے سلام پیش کرنا اورحسنِ عاقبت کے لیے دُعا کی درخواست بھی کرنا۔ میں نے بیعت ہونے کے بعد حضرت مدنی سے عرض کیا کہ کوئی وظیفہ تو ارشاد فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا علم پڑھنے پڑھانے والے کے لیے کسی اوروظیفہ کی ضرورت ہوتی ہے؟ علم پڑھو اورپڑھائو بس یہی وظیفہ ہے ،اورفرمایا کہ کیا اصحاب صفہ یہی کرتے یا کوئی اوروظیفہ کرتے تھے؟ اب میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ان کی شفقت ،ہمدردی ، مجاہدہ اورتبحر علم یہ ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ آج کے عالمِ دین کے لیے مولوی بن جانا کافی نہیں کچھ اس میں رُوح بھی ہو۔ ہمیں عملی طورپر یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اسلام اعلیٰ وبرتر چیز ہے تو اس کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ہم اُس دور کی یاد تازہ کریں کہ جب سلطنت ِعباسیہ کے دور میں چنگیز خان نے قبضہ کیا تھا اورتمام مسلمانوں کو اُس وقت تتر بتر کردیا تھا تو مسلمانوں نے یہی تبلیغ دین کا طریقہ اختیار کیا تھا تو نتیجہ یہ ہوا کہ سارے عالم کو مسلمان کردیا''۔ حضرت مدنی کے تلمیذ مولانا محمدمجاہد ایم پی اے نوشہرہ نے اپنے خطاب میں کہا :''جو جہاد حضرت مدنی نے انگریز جابر کے خلا ف کیا ،تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ایک مقدمہ پیش ہوتے وقت جج نے کہا کہ مولوی صاحب !آپ کو معلوم ہے کہ اس کا فیصلہ کیاہوگا ؟تو آپ نے فرمایا ہاں مجھے معلوم ہے اس لیے کفن ساتھ لایا ہوں۔حضرت مدنی انگریز کے لیے ایک کھلی ہوئی تلوار تھے ۔ بہر حال اس زمانے میں مجھے کوئی ایسی جامع شخصیت نظر نہیں آتی ''۔ وفاق المدارس العربیہ کے ناظمِ اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے شیخ الاسلام سیمینار کو ایک یادگار سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا :''حقیقت یہی ہے کہ ہمیں اپنے اس زمانے میں ایسی جامع شخصیت حضرت مدنی کے علاوہ نظر نہیں آتی۔ وہ مسلمانوں کے سیاسی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ ہم جو آج آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہیں اور جو ہندوستان میں آزادی سے رہ رہے ہیں یہ سب حضرت مدنی کے صدقے ہے۔ حضرت تھانوی سے پوچھا کہ کیا حضرت مدنی مجدد ہیں؟ تو حضرت نے فرمایا بلاشبہہ حضرت مدنی مجدد ہیں ۔ اکابر کا آپس میں احترام تھا۔ان کا تذکرہ ایک کستوری ہے کہ جتنا آپ اس کو چھیڑیں گے اتنی زیادہ اُس کی خوشبو مہکے گی''۔ جامعہ قاسمیہ مراد آباد کے شیخ الفقہ اورحضرت مدنی کے نواسہ محترم مفتی سیّد محمد سلمان صاحب منصورپوری