ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
ایک زمانہ تھا کہ لوگ حضرت کو شیخ الاسلام کے لقب سے پکارنا تو درکنار حضرت کا نام لیتے ڈرتے تھے اور دارالعلوم دیوبند اور جمعیت علمائے ہند کے ذکرمیں احتیاط برتتے تھے۔ آج حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے حق کا کیسا بول بالا ہواہے۔ بہاولپور کا یہ شیخ الاسلام سیمینار کئی اعتبار سے تاریخ دعوت وعزیمت کا ایک یادگار واقعہ قرارپائے گا۔ آج کا واقعہ تخم ریزی کا عمل ہے، کل جب یہ تخم برگ وبار پیدا کرے گا تب اس کی اہمیت کا اندازہ کیا جائے گا اورکیا تعجب کہ مستقبل میں یہ تاریخ کا ایک یاد گا رواقعہ قرار پائے اور پھر خود اِس کی تاریخ لکھی جائے۔ جن اصحابِ بصیرت کی نظر پاکستان کے ابتدائی حالات پر ہے، وہ حیرت زدہ ہیں کہ یہ کیسے کایا پلٹی ہے کہ ان کے احترام میں سب کے سرجھکے ہوئے ہیں ۔ مخالفین سوچتے ہیں کہ ان کی باتوں میں کوئی وزن اور سیرتوں میں کوئی بات تو ہے کہ اِن کے سامنے عقلیں متحیر اورزبانیں گنگ ہو جاتی ہیں ،بوڑھے خاموش ہیں اور نوجوان ان سے پوچھتے ہیں، یہ ویسے تو نہیں جیسے آپ نے ہمیں ان کے بارے میں بتایا تھا ! کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کے احترام میں آپ سے کوتاہی واقع ہوئی ہو؟نہ بوڑھوں کی خاموشی ٹوٹی ہے نہ نوجوانوں کو جواب ملتا ہے ،لیکن جب انقلاب آتا ہے تو اُس کے اثرات فضا میں سرایت کرجاتے ہیں اورہوا کی لہریں بتا دیتی ہیں کہ ایک نیا موسم آگیا ہے ، یہ بتانے کے لیے کہ چمن میں موسم ِگل آگیا ہے، کسی اعلان کرنے والے کے اعلان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حضرت شیخ الاسلام کے تلمیذ و بیعت یافتہ حضرت مولانا عبدالحی ٔصاحب جامپوری نے اپنی یادوں کے عنوان سے سامعین کو معلومات فراہم کیں، آپ نے اظہارِخیال کرتے ہوئے فرمایا : ''اس سیمینار کے انعقاد پر ہمارے سر فخر سے بلند ہیں۔ حضرت مدنی نے فرمایا اٹھارہ سال سے میں نے تکیہ رکھ کر سونا چھوڑدیا ہے تاکہ کبھی جیل جانا پڑے تو طبیعت میں اُکتاہٹ نہ ہو۔ جب ہم فارغ ہوکر جانے لگے تو اس وقت یہ بات حضرت نے بیان فرمائی۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھا کہ جتنا ہم نے حضر ت مدنی کو نماز میں روتے دیکھا ہے اورکسی کو نہیں دیکھا۔ سہ ماہی امتحان کے بعد ہم نے ارادہ کیا کہ حضرت تھانوی کی زیارت کرنی چاہیے ۔ جمعہ کا دن تھا، جمعہ وہیں پڑھا۔ ہمارے دل میں ایک تصور تھا حضرت اوراِن کے اختلاف کا ۔ خدا جانے کیا بنے گا۔تو حضرت تھانوی نے پوچھا بھائی ! میرے بھائی حضرت مدنی کا کیا حال ہے ؟ ہم نے کہا حضرت عافیت سے ہیں تو یقین جانیے ٹھنڈا سانس بھر کرکہا کہ کاش! بزرگوں کے منصب پر بیٹھنے کا جو اُن کو مرتبہ ملا ہے ہم غریبوں کو نصیب ہوجاتا اورپھر