ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
سخت سردیوں کے دنوں میں بھی پیشانی مبارک عرق ریز ہو جاتی تھی وَاَنَّ جَبِیْنَہ لَےَتَفَصَّدُ عَرْقاً ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں چند باتوں کی طرف اوربھی توجہ دلائی جائے۔ آپ نے یہ بھی غور فرمایا ہوگا کہ جبرئیل علیہ السلام کے قرآن پاک لیتے وقت یا آسمانِ اول تک اُترنے میں اور پھر قلب ِاطہر تک پہنچانے میں کسی بھی جگہ شیطان کا گزرنہیں، اس لیے ارشاد ہوا لَا یَاْ تِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہ ط تَنْزِیْل مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ۔ (پ ٢٤ سورۂ حم تنزیل السجدة) آپ نے یہ بھی غورفرمایا ہوگا کہ قرآن پا ک کی طرح کوئی کتاب نازل نہیں فرمائی گئی ،پچھلی کتابیں لکھی لکھائی اُتاری گئیں۔ اتنی مشقت میں باطل سے کتنی زیادہ حفاظت ہو گئی ،اور مشقت سے اتنی عظیم چیز حاصل ہوئی ہو تو وہ کتنی محبوب ہو گی ۔ اسی لیے آقائے نامدار ۖ کو قرآن عظیم سے سب سے زیادہ محبت تھی ۔ اور یہ طبع مبارک میں رچا ہوا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ آپ کی عادت وہ تھی جو قرآن پاک ہے ۔ گویا دونوں ایک ہی چیزیں ہیں، اِسے پڑھ لو اُنہیں دیکھ لو۔ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کے دور میں یہ فتنہ پیدا ہو ااو ربفضل ِخدا ہمیشہ کے لیے ختم بھی ہو گیا ۔ امام صاحب رحمة اللہ علیہ نے سمجھایا کہ کلام ُاللہ عِلْم ہے اورعلم خدا کی صفت ہے وہ مخلوق نہیں ہے لہٰذا کلام اللہ بھی مخلوق نہیں ہے ۔ آپ حضرات یہ بات اس طرح بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ جب آپ کسی کی کوئی بات نقل کرتے ہیںتو کہتے ہیں کہ فلاں صاحب نے یہ کہا تھا اُن کے الفاظ بعینہ یہ ہیں۔گویا آپ نے الفاظ کی نسبت متکلم (کہنے والے) ہی کی طرف کی کیونکہ نقل کرنے والا الفاظ کی نسبت اپنی طرف نہیں کیا کرتا۔ بس یہی حال کلامِ الٰہی کا ہے کہ وہ الفاظ چاہے کسی کی زبان پر جاری ہوں خدا کے ہی ہیں ۔وہ کلام الٰہی ہے گو کسی کی زبان سے ظاہر ہو رہا ہو اوراُس کے ظہور کا ذریعہ کسی کی بھی آواز ہو اور قرآن کے الفاظ ہوں یامعنی سب کلام ُاللہ ہیں۔ رہا یہ امر کہ آیا پڑھنے والے کی آواز بھی قدیم ہے تو اس کے بارے میں امام احمد نے یہ کبھی نہیں فرمایا کہ وہ غیر مخلوق ہے بلکہ اُنہوں نے صراحت کی ہے کہ آوازپڑھنے والے ہی کی ہوا کرتی ہے ۔آواز کے قدیم ہونے کااُنہوںنے کبھی دعوٰی نہیں فرمایا۔اور حدیث شریف میں آتا ہے زَیِّنُوا الْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ یعنی قرآن پاک کو ا پنی آوازوں سے مزین کرو، گویا حدیث میں آواز کی نسبت آدمی ہی کی طرف کی گئی ہے ۔البتہ امام احمد نے