ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
میں بھی قریب قریب حروف پیدا ہو جاتے ہیں ۔تار والے تارکے کھٹکوں سے حروف سمجھ لیتے ہیں وغیرہ اورباری تعالیٰ تو جس طرح چاہیں جو چاہیں محض ارادہ سے پیدا فرما سکتے ہیں ۔وہ اس سے بھی زیادہ واضح الفاظ ریکارڈ کی طرح پیدا فرما سکتے ہیں۔ اشاعر ہ فرماتے ہیں کہ یہ عین ممکن ہے کہ باری تعالی کی ذات پاک کی طرح بلا کم و کیف کلام الٰہی بھی ہو اور جس طرح قیامت میں ہمیں ذات پاک کا مشاہدہ حاصل ہوگا، ملائکہ کو کلام الٰہی کا ادراک اسی طرح اب حاصل ہو۔ اشاعر ہ کی بیان کردہ صورت گزشتہ صورت سے زیادہ بلند واسلم ہے، اوراس صورت میں یہ بھی ہے کہ حضرت جبرئیل سدرة المنتہیٰ پر اپنے مقام پر ہوں اوروہیں انہیں کلامِ الٰہی عنایت ہو رہا ہو کیونکہ یہ عطاء اورجبرئیل امین کا اس عطاء کو لینا دونوں نہایت بلند رُوحانی اشیاء ہیں ۔ اس کے بعد نظم قرآنی جو اُن سے ظہور پذیر ہوتی تھی وہ کلام اللہ ہوتی تھی اور وہ کلام نفسی پر پوری طرح دلالت کرتی تھی ۔ یہ وہ صورتیں ہوئیں جو علماء کرام نے کلامِ نفسی کے ظہور کی بتلائی ہیں جسے'' تَلَقُّفِ مَلَکْ'' کہا جائے۔ اس کے بعد علماء کرام فرماتے ہیں کہ آسمان ِاول پرقرآن کریم یک لخت نازل ہوا، اسے قرآن حکیم میں '' اَنْزَلْنَا '' کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے ارشاد ہوا : اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ پھر جبرئیل امین کا تھوڑا تھوڑا بقدرِ ضرورت لے کر نیچے آنا یہ '' تَنْزِیْل ''کہلاتا ہے ۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے : نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہ نیز ارشاد ہوا نَزَّلَہُ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ اس آیت عظیمہ میں آقا ئے نامدار ۖ پر قرآنِ کریم کے نازل ہو نے کی اشارةً کچھ کیفیت بتلائی گئی ہے کہ وہ قلب ِاطہر پر اُتارا جاتا تھا کیونکہ انسان حقیقتاً تمام چیزوں کا ادراک قلب سے کرتا ہے وہ ہی صوفیاء کرام کے نزدیک محل ِرُوح ہے (اگرچہ امام اعظم رحمة اللہ علیہ کا ایک قول یہ ملتا ہے کہ محل ِرُوح دماغ ہے۔ یہ قول حضرت مولانا انورشاہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے فیض الباری میں دیا ہے اور آج کل کی ڈاکٹری تحقیقات کے عین مطابق ہے لیکن صوفیائے کرام کے نزدیک پہلا قول تقریباً اجماعی ہے )۔ بوقت ِوحی حضرت جبرئیل علیہ السلام کا آقائے نامدار ۖ کی رُوح ِمطہرہ کے ساتھ شدید اتصال ہوتا تھا جس کا اثر جسم ِاطہر پر بھی ظاہر ہوتا تھا۔مثلاً حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنی ران پر سر مبارک رکھ رکھا تھا کہ وحی کی کیفیت ہوئی، وہ فرماتے ہیں کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ میری ران ٹوٹ جائے گی اَنْ تَرَفَّضَ فَخِذِیْ ۔اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وحی کے وقت اتنی شدت ہوتی تھی کہ