ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
ذات کو حرکت کی ضرورت کیونکہ وہ ہرجگہ موجود ہے۔اور جب ذات ہی حرکت سے منزہ ہے تو دوسری عرضی حرکتیں کہاں پیدا ہو سکتی ہیں وہ ان سے بھی بلند ہے۔ (٥) اس لیے یوں سمجھا یاجاتا ہے کہ کلام کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو متکلم کی ذات میں ہو مثلاً آپ اپنے دل میں کوئی بات کہہ رہے ہوں اُسے'' کلامِ نفسی'' کہا جاتا ہے ،یہ تو منتقل نہیں ہو سکتا۔ دوسری قسم ''کلام لفظی'' کہلاتی ہے یعنی جب آپ کی زبان سے وہ کلام ادا ہو جائے تو پھر دوسرے کے کان تک منتقل ہو سکتا ہے کیونکہ وہ کلام لفظی بن گیا ہے، اس نے الفاظ کی شکل اختیار کرلی ہے ۔ بس کلام ِالٰہی جو نازل ہو اوہ کلام ِلفظی ہی ہے اوریہ کلام( ماتریدیہ اور اشاعرہ کے نزدیک) حادث ہے۔ وقال شیخ زادہ : وَاِنَّمَا الْمُنَزَّلُ ھُوَ الْکَلامُ اللفظِیُّ الحادثُ المُرَکَّبُ مِنَ الالفاظِ والحروفِ المُؤلفةُ مِنَ الاےَاتِ وَالسُّوَرِ وھو القُرآنُ المُعجِزُ الْمُتَحَدَی بہ لِکونہ کَلامُ اللّٰہِ حقیقةً ۔ عَلٰی انہ مخلوق لِلّٰہِ تعالیٰ لیسَ مِن تَالیفِ الْمَخْلُوقِینَ ۔لَاعَلٰی مَعْنٰی اَنَّہ صِفَة قَائمة بِذاتِہ تَعَالیٰ لِاَنَّہ حادِث وَیَمتنِعُ قِیامُ الحَوَادثِ بِہِ تَعَالیٰ ۔ ''(شیخ زادہ مفسر قرآن فرماتے ہیں )جو چیز نازل ہوئی ہے وہ لفظی کلام ہے نو پیدا ہے اورسورتوں اورآیات کے الفاظ اور حروف سے مرکب ہے اوریہی وہ قرآن ہے جو عاجز کردینے والا ہے جس کا چیلنج دیا جاتاہے کیونکہ یہ حقیقت میں اللہ کا کلام ہے اوریہ اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے مخلوق کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے ۔ا س معنی میں نہیں کہ یہ ایسی صفت ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے اس لیے کہ یہ نو پید اہے اورنو پیدا چیزوں کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہونا ممتنع ہے'' ۔ ان الفاظ کے کلام الٰہی ہونے کا مطلب اورکیفیت ِوحی جس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ حق تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ سے اُن حروف کی آوازیں جبرئیل ِامین کے لیے پیدا فرمادیتے تھے اور انہیں اس امر کا یقین عطا فرمادیتے تھے کہ یہی وہ عبارت ہے جو کلام نفسی قائم بذات تعالیٰ کے معنی ادا کررہی ہے جیسا کہ بخاری شریف باب کیف بد أ الوحی میں اس قسم کو '' اَشَدُّ عَلَیَّ ''سے تعبیر کیا گیا ہے ،کیونکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ستار اور ہارمونیم وغیر