ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
چاہے تمام انسان اورجنات جمع ہو کر کوشش کرلیں۔ قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰی اَنْ یَّأْ تُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَأْ تُوْنَ بِمِثْلِہ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا۔(سُورۂ بنی اسرائیل آےة٨٨) ''کہہ اگر جمع ہوں آدمی اور جن اس پر کہ لائیں ایسا قرآن ،ہرگز نہ لائیں گے ایسا قرآن اور پڑے مدد کیا کریں ایک دوسرے کی''۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ علی الترتیب چند علمی مباحث بتلائے جائیں مثلاًکلام الٰہی کا الفاظ میں آنامخلوق ہے یا نہیں، کلام الٰہی کا نزول آسمان پر، کلام ِالٰہی کا نزول رسول اللہ ۖ پر اور وحی کی کیفیت، پھر آخر میں''خلقِ قرآن ''کے نام سے ایک معروف مسئلہ کا خاکہ۔ (٤) (الف) چنانچہ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن کلام خداوندی ہواتونازل کیسے ہوا ،حروف کی شکل کیسے پیدا ہوئی کیونکہ نزول میںمثلاً کوئی چیز اُوپرسے نیچے آ رہی ہو تو حرکت ہونی ضروری ہوتی ہے اور ذاتِ باری تعالیٰ حرکت سے پاک اور بلند وبالا ہے ،وہ خود ہر جگہ موجود ہے۔ حرکت کی کئی قسمیں ہیں مثال کے طورپر جب انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتا ہے کہیں آتا جاتا ہے تو یہ اُس کی ذات کی حرکت کہلاتی ہے۔ (ب) اس کے ساتھ اس کا رنگ رُوپ بھی حرکت کرتا ہے کیونکہ یہ تو کہیں نہیں ہوتا کہ انسان خود چلا جائے اوراپنا رنگ رُوپ چھوڑ جائے ،لا محالہ رنگ رُوپ سمیت ہی جاتا ہے ،تو یہ کہا جاتا ہے کہ انسان کے ساتھ اس کی اعراض حرکت کر رہی ہیں ،رنگ رُوپ اس کی عرضیں ہیں۔ (ج) نیز جب حرکت کرتا ہے مثلاً چلتا ہے تو چلنے سے ایک خاص نقشہ کہ قدم اُٹھاتا ہے پھر رکھتا ہے پھر اُٹھاتا ہے پھر رکھتا ہے، پیدا ہوتا ہے ۔یہ خاکہ ہر قدم پر پیدا بھی ہو رہا ہے اور فنا بھی ہوتا جا رہا ہے، یہ حرکت کی تیسری صورت ہے ۔ یہ تین حرکتیں آپ بہت سی متحرک چیزوں میں دیکھتے ہیں (ان کے فلسفیانہ نام علی الترتیب یہ ہیں : متحیز بالذات کی حرکت ،اعراض قائمہ کی حرکت چاہے وہ اپنے موضوع کے ساتھ قائم ہوں جیسے رنگ رُوپ یعنی قارّالذات ہوں یا قائم نہ ہوں یعنی غیر قارّالذات ہوں جیسے چلتے وقت کا خاکہ کہ یہ سیال مترتب الا جزاء اور ممتنع البقاء ہوتا ہے)۔اب ظاہر ہے کہ ذات ِباری تعالیٰ میں یہ تمام صورتیں متصور نہیں ہو سکتیں ۔ نہ تو اُس کی