ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2005 |
اكستان |
|
نَبِیِّکَ وَالْاَنْبِیَآئِ الَّذِیْنَ قَبْلِیْ ( ایضاً ص٢٠٢) اور حضرت عثمان بن حُنیف رضی اللہ عنہ نے ایک صاحبِ حاجت کو تعلیم کی اور اُس نے نبی کریم ۖ کا وسیلہ پیش کرکے حاجت چاہی تو اُس کی حاجت پوری ہوئی ۔ (معجم صغیر ص١٠٤ خلاصة الوفاء بحوالہ بیہقی ) اور حضور ۖ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک دعا تعلیم فرمائی جس میں نبی ۖ اور ابراہیم وموسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام کا وسیلہ پیش کیا گیا۔ (جمع الفوائد ص٤٥٨ ج١) (٣) تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی نیک شخصیت جو اَبھی تک دنیا میں نہیں آئی اُس کا وسیلہ پیش کرکے دعا کی جائے ۔یہ صورت بھی قرآن مجید سے ثابت ہے کہ یہودآپ ۖ کے تشریف لانے سے پہلے کفار کے مقابلہ میں آپ کے وسیلہ سے فتح کی دعا کیا کرتے تھے ( سورۂ بقرہ) اور حضرت آدم علیہ السلام نے نبی کریم ۖ کا وسیلہ پیش کرکے دعا فرمائی (دُرمنثور ص ٥٨ ج ١) ۔اس روایت پر اگر چہ کچھ محدثین نے کلام کیا ہے لیکن امام حاکم اور نورالدین سمہودی اورامام سبکی وغیرہ نے صحیح قراردیا ہے۔ اس کے صرف ایک راوی عبدالرحمن بن زید پر کلام کیا گیا ہے لیکن وہ کذاب اور وضاع نہیں ہے اس لیے یہ روایت بھی موضوع نہیں ہے ایسی روایت سے مسئلہ توسل کی دلیل لینا در ست ہے۔ یہ سب صورتیں احادیث سے ثابت ہیں مگر منور صاحب ان کو نہیں مانتے حالانکہ صحیح احادیث کے انکار کو برا بھی مانتے ہیں لیکن ایک صورت کو تسلیم کرتے ہیں کہ نیک شخص کی زندگی میں اس طرح وسیلہ پیش کیا جائے کہ ان سے دعاء کرائی جائے ۔سوال یہ ہے کہ کیا جب ایک شخص اللہ تعالیٰ سے دعاء کرتے ہوئے کہے یا اللہ اپنے نبی ۖکے طفیل میری حاجت پوری فرما کیا وہ غیراللہ کو پکار رہا ہے کہ آنجناب اس پر پکار کی آیات چسپاں کرتے ہیں ؟ کیا وہ غیر اللہ کی عبادت کررہا ہے کہ اِس پر آنجناب مانعبدھم الا لیقربونا الی اللّٰہ زلفی کی آیت پڑھتے ہیں ؟ کیا وہ اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہوئے اللہ کو دُور سمجھتا ہے کہ آنجناب فانی قریب کی آیت پڑھتے ہیں؟ کیا وہ اللہ کو نہ سننے اور نہ جاننے والا سمجھتا ہے کہ آپ علم وسمع کی آیات پڑھتے ہیں ؟ اوریہ بھی فرمائیے کہ جب آنجناب کہتے ہیں کہ زندہ سے دعاء کرائی جا سکتی ہے تومثلاً زید ایک بزرگ کو کہتا ہے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے فلاں دعا کریں تو یہ ایسے ہوا جیسے بادشاہ سے براہِ راست مانگنے کے بجائے بالواسطہ کسی کام کی درخواست کی جائے تو کیا یہ واسطہ بنانے والا ھٰؤلاء شفعاء نا عنداللّٰہ کہنے والوں کی طرح نہیں ہوتا اور کسی فوت شدہ بزرگ کو وسیلہ پیش کیا تو وہ ھٰؤلاء شفعاء نا کہنے والوں جیسا بن گیا ؟انصاف چاہیے کیا دونوں صورتیں ایک جیسی نہیں