ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2005 |
اكستان |
|
تو دوستو ! یہ بات ممکن ہے کہ آپ میں سے بہت لوگوں کو اس بات پر اشکال ہوتو وہ اُن کو مبارک ہو، میں تو اپنے اُستاد کا نقل کیا ہوا واقعہ بیان کررہاہوں جو انھوں نے مجھ سے ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ بیان کیا ۔تو معلوم ہواکہ اگر آدمی میں قابلیت نہ بھی ہو مگر وہ اپنے بزرگوں سے محبت کرتا ہو، بزرگوں سے اس کی عقیدت وابستہ ہو، اُن کا ادب واحترام کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ کرامت کے طورپر ایسی صورت پیدا فرمادیتے ہیں کہ وہ مفید ہوتا ہے اورلوگوں کو اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ بہرحال منشاء یہ تھا کہ آپ لوگ اساتذہ کا بھی ادب کریں ۔ ان کے ساتھ آپ کو محبت ہونی چاہیے اور عقیدت آپ کے دل میں ہونی چاہیے ۔ جس طرح آپ اُن کے سامنے گردن جھکا کر سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنے ادب کا اظہار کرتے ہیں اُن کی عدم موجودگی میں بھی اسی طریقے سے آپ کا رویہ ہونا چاہیے تو اس سے انشاء اللہ فائدہ ہوگا۔ تواللہ تعالیٰ آپ کو ایسا علم عطا فرمائے جس سے آپ کو بھی فائدہ ہو اور خلقِ خدا کو بھی ۔کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے علم سے اُن کو فائدہ ہوتا ہے لیکن اُن کے علم سے دوسروں کو فائدہ نہیں ہوتا ،کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے علم سے لوگوں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے اُن کو خود کو فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ تو اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا علم عطا فرمائے جس سے ہمیں بھی فائدہ حاصل اورخلقِ خدا کو بھی۔ اللہ تعالیٰ اس ادارے کودِن دُگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔