ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
|
فسوس اس کا ہے کہ اس قوم کی فلاح و ترقی میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو جائے ۔ بار بار یہ ارشاد زبان ِمبارک پر ہے :ہائے وہ قوم فلاح کیوں کر پائے گی جس نے اپنے سب سے بڑے خیر خواہ کے ساتھ یہ برتائو کیا۔ تواضع اور انکساری حد درجہ کی تھی ۔غریب سے غریب بھی اگر دعوت کرتا تو بلا تکلف منظور فرمالی جاتی اور پھر شاہِ دوجہاں کو ایک غریب کے جھونپڑے پر جانے میں کوئی عذر نہ ہوتا ۔ معمولی سے معمولی شخص جہاں چاہتا حضور ۖ سے گفتگو کرسکتا تھا نہ دروازہ پر کوئی دربان تھا نہ راستہ میں کوچوان کی ہٹو بچو نہ ساتھیوں کے ساتھ چلنے میں کوئی نرالی شان ہوتی نہ بیٹھنے میں کوئی امتیازی شان، راحت اور آرام میں سب سے کم حصہ ہوتامگر مشقت اور جفاکشی میں سب کے برابر بلکہ زیادہ ۔جوتے یا پھٹے ہوئے کپڑے خود سِی لیتے ،دراز گوش پر سوار ہونے میں بھی کوئی تکبر نہ ہوتا ۔ارشاد ہوا تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم کی اصل مٹی ہے جب کبھی دوچیزوں میں اختیار دیا جاتا توحضور ۖ آسان کو پسند فرماتے ہاں اگر اس میں بد سلوکی یا ناانصافی ہوتی تو آپ اُس سے کوسوں دور رہتے۔ کم گوئی حضور ۖ کی طبیعت تھی ۔اگر فرماتے تو مفید بات، دوسروں کو بھی تعلیم ہوتی کہ جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اُس کولازم ہے وہ خاموش رہے اور بولے تو اچھی بات۔ ارشاد ہوا مسلمان کی خوبی اس میں ہے کہ بیکار بات اُس سے سرزد نہ ہو ۔ ہر حالت میں خدا کی طرف توجہ ہوتی ۔ اگر کوئی ناگوار بات پیش آتی تو فرماتے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون یا الحمد للّٰہ علٰی کل حال۔ خوشی کے موقع پر فرمایا جاتا الحمد للّٰہ رب العلمین ۔ حضور ۖ کا غصہ اور خوشی دونوں چہرۂ مبارک سے ظاہر ہوجاتے ۔ جب خفا ہوتے تو منہ پھیر لیتے اورخوشی کے وقت آنکھ نیچی ہوجاتی، اِترانے کی بجائے عاجزی ظاہر ہوتی۔ حضور ۖ کے دامن ِرحمت میں جانور بھی اسی طرح پناہ لیتے جیسے انسان ، اور کافر بھی اس سایہ میں ویسے ہی آرام پاتے جیسے مسلمان۔ارشاد ہوا مومن وہ ہے جس سے آدم کی کسی بھی اولاد کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ جانوروں پر مہربانی : بلّی آتی تو اس کے پانی کا برتن اس وقت تک جھکائے رکھا جاتا جب تک وہ سیراب نہ ہوجائے ۔ فرمایا ایک بدکار عورت کی اسی میں نجات ہو گئی کہ پیاس سے سسکتے ہوئے کتے کو پانی پلادیا تھا جس سے وہ زندہ ہو گیا ایک عورت اسی باعث دوزخ میں جل رہی ہے کہ بلی کو باندھ لیا تھا مگر کچھ کھانے کو نہ دیایہاں تک کہ بلی مرگئی ۔ سوار ہونے والوں کو وصیت ہوتی کہ سواریوں پر سختی نہ کریں ذبح کرنے والوں کو حکم ہوتا کہ ذبح میں تکلیف دہ طریقہ اختیار نہ کریں، گھوڑے والوں کو نصیحت ہوتی اپنے گھوڑوں کے منہ کو چادر یا آستین سے صاف کرلیا کریں ۔اسی عام رحم و کرم کا بھروسہ تھا کہ جانور بھی اپنی شکائیتیں حضور ۖ کے دربار میں پیش کرتے تھے۔