ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
کردے ۔ یہاں بھی پرانے کرنے کا مطلب یہی ہے کہ صرف پہننے سے اس کا مال نہیں بن جاتا بلکہ پرانا کرنے سے۔ اگر کوئی نیا کپڑا پہن لے تو جب تک وہ پرانا اور فنا نہ ہوگا ا ُس کا نہیں کہلایا جاسکتا ۔معلوم نہیں کہ یہ کپڑا وہ خود اُتارے گا یا دوسرے اُتاریں گے یعنی یہ خبر نہیں کہ وہ اُس کپڑے کے ختم ہونے تک زندہ بھی رہے گا یا پہلے ہی وفات پاجائے گا ۔ہاں اگر پہنتے پہنتے اُس کے پاس ہی پرانا ہوگیا تو پھر یہ واقعی اس کا مال تھا۔ حضور ۖ کی خدمت میں ایک بچی اُمِ خالد لائی گئی ، اُس کے سرپر دوپٹہ تھا ۔ حضور ۖ نے اُس کو دعا دی کہ پرانا کرتی رہے پرانا کرتی رہے ۔ یعنی کپڑے پرانے کرتی چلی جائے۔ مقصدیہ ہے کہ تو زیادہ عرصہ تک زندہ رہے۔ آگے ارشاد ہے اواعطی فاقتنٰی یا خدا کی راہ میں دے دے اور ذخیرہ بنادے جو اُسے آخرت میں کام آئے۔ پھر فرمایا : وما سوی ذالک فھو ذاھب وتارک للناس یعنی جو کچھ ان تین کے سواء ہے تو اُس کا یہ حال ہے کہ یہ شخص تو چلا جائیگا اورجو جمع کیا ہے وہ لوگوں کے لیے چھوڑ جائیگا ۔ گویا صرف تین طرح کا مال حقیقتاً اس کاہے اوروہ اسے مال کہہ سکتا ہے : (١) جو کھا کر ہضم کرلے۔ (٢) جو پہن کر پُرانا کردے۔ (٣) جو خدا کی راہ میں صرف کردے اورپھر نام نہ لے بلکہ اُسے خزانہ کی طرح چھپا کر اپنے اور خدا کے درمیان رکھے۔ ان تین طرح کے علاوہ مال کو دوسرے لوگ خرچ کریں گے ۔ وہ چھوڑ کر چلا جائے گا ایک روز یہی بات نہایت خوب صورتی سے سمجھانے کے لیے حضور ۖ نے صحابہ سے ارشاد فرمایا جس کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعود ہیں ، فرمایا : ایکم مال وارثہ احب الیہ من مالہ یعنی تم میں سے کون ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو؟ (یعنی یہ چاہتا ہو کہ میرے پاس مال نہ ہواور وارث کے پاس ہو) صحابہ کرام نے عرض کیا قالوا یا رسول اللّٰہ مامنا احد الا مالہ احب الیہ من مال وارثہ یعنی ہم میں تو کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو۔ آپ ۖ نے فرمایا قال رسول اللّٰہ فان مالہ ماقدم ومال وارثہ ما اخر فرمایا کہ اپنا مال تو وہ ہے جو پہلے بھیج دے اوراپنے وارث کا مال وہ ہے جو بعد کے لیے چھوڑ جائے۔ مراد یہ ہے کہ جسے اپنے مال سے محبت ہے اُسے چاہیے کہ وہ آگے کے لیے بھیج دے وہی حقیقت میں اس کا ہوگا اورجورہ جائے گا وہ ور ثاء کا ہوگا ۔ غرضیکہ جو مال شریعت کے مطابق جمع کیا جائے اور شریعت کے مطابق خرچ کیا جائے وہ اچھی چیز ہے ۔ قرآن کریم میں ایسے مال کو اور دولت کو فضل و خیر جیسے اچھے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور جو دولت غیر شرعی طورپر کمائی جائے اور غیر شرعی طورپر صرف کی جائے وہ دولت و مال مذموم اور ملعون ہے ۔