ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
''(میں اِن کی تباہی نہیں چاہتا)بلکہ مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اِن لوگوں کی نسلوںمیں ایسے افراد پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ قرار دیں گے۔ '' (بخاری شریف ، مسلم شریف الروض الانف ٢/٢٣٥) اللہ اکبر! کیا شانِ رحمت ہے جس کا کوئی ذرہ بھی دوسری جگہ ملنا محال ہے ، اور پھر یہی شان ِرحمت ہر جگہ آپ کی زندگی میں نمایاں رہی حتی کہ مدینہ منورہ (علی صاحبہا الصلٰوة والسلام ) کی ہجرت کے بعد منافقین نے کس قدر ایذا پہنچائی مگر آپ اپنی شاندار رحمت سے سب برداشت فرماتے رہے۔ دشمنوں کے ساتھ عفوودرگزر : فتح ِمکہ دنیا کی تاریخ کا وہ یاد گار دن ہے جب رحمت ِعالم فخر دوعالم ۖ کی طرف سے دشمنوں کے عفو ودر گرز کا وہ عظیم الشان نمونہ پیش کیا گیا کہ رہتی دنیا تک کوئی اِس کی نظیر پیش نہیں کرسکتا ۔ ذرا غور کریں !یہ مکہ کونسی جگہ تھی؟ اور اس جگہ کے باشندوں کی کیا تاریخ رہی تھی؟ یہی وہ لوگ تھے اور یہی وہ جگہ تھی جہاں پیغمبر علیہ السلام کے ساتھیوں پر مسلسل ١٣سال تک ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے تھے ۔ یہیں پیغمبر علیہ السلام کے ا ُوپر نماز کی حالت میں اُونٹ کا بدبوداراوجھ رکھا گیا آپ کے راستہ میں کانٹے بچھائے گئے ، یہیں آپ کے قتل کے منصوبے بنائے گئے ، اسی سرزمین پر ابوبکر کو لہو لہان کیا گیا۔ بلال حبشی ، عمار بن یاسر ، صہیب رومی ، ابوذر غفاری ، خبیب اور حضرت سمیہ جیسے مخلص مسلمانوں کو نہایت درندگی کے ساتھ تختۂ مشق بنایا گیا،اور مکہ کے یہی لوگ تھے جنہوں نے مدینہ منورہ پر بار بار چڑھائی کی تھی اور انھوںنے ہی اپنے ہاتھوں صلح حدیبیہ کی شرئط کو پامال کیا تھا۔ آج جب جانثارانِ نبوت کے ہاتھوں مکہ کے فتح کرنے کا وقت آرہاتھا تو ان ظالموں کے لیے معافی کے دروازے دنیا کے دستور کے مطابق بند ہو جانے چاہئیں تھے اور انہیں چن چن کر ٹھکانے لگا دیا جانا چاہیے تھا مگر دنیا کا دستور اورد نیا دار بادشاہوں کا طریقہ کچھ بھی رہا ہو، سرورِ کونین اور شاہِ دوجہاں رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفی ۖ نے اِس موقع پر جس دستور کو پیش کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا وہ یہ تھا کہ جب آپ کو فتح مکہ کے موقع پر بعض پرجوش صحابہ کی طرف سے یہ کلمات پہنچے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ الیوم یوم الملحمة (آج تو گو شت کاٹنے کادن ہے) یعنی ان کا جذبۂ انتقام جوش مار رہا ہے اور وہ آج مشرکین ِمکہ کو اُن کی اوقات بتادیں گے تو پیغمبر علیہ السلام نے اس جملہ پر ناگواری ظاہر فرمائی اور اعلان کیا کہ : ''آج (گوشت کاٹنے کادن نہیں ، بلکہ ) وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ کعبہ کو مزید عظمت عطاء فرمائے گا اور آج کے دن کعبہ کو عزت کا لباس پہنایا جائے گا۔'' (السنن الکبری للبیہقی ٩/٣٠٣)