ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2003 |
اكستان |
|
بن سعد نے بھی مدینہ کو جائے ولادت بتا کر لکھا ہے کہ ان کا نشوونما وادی القری میں ہوا (طبقات ٧/١٥٦،١٥٧)اور ابن قتیبہ جائے ولادت کے بارے میں خاموش ہیں اور نشو ونما وادی القری میں بتاتے ہیں (معارف ١٩٤،١٩٥)۔ لسان العرب میں ہے : نشاء ینشا نشوا ونشا ونشاة ونشاة حیی وانشاء اللّٰہ الخلق ای ابتدا خلقہم ۔ ونشا ء ینشاء نشاء ونشوا ونشا'' ربا وشب ونشأت فی بنی فلان نشأ و نشوآ شبلیت فیہم (١/١٦٥) معلوم ہوا کہ نشأ کے دو معنی ہیں ایک زندہ ہونا دوسرے پرورش پانا ۔نشأکے معنی پیدا ہونے کے نہیں کہ نشا ء بوادی القری کا ترجمہ'' Was born at Wadi-i-Qura ''کر دیا جائے او رنکلسن جیسے عربی کے فاضل سے یہ بعید بھی ہے پھر اس کے سوا کیا کہا جائے کہ ان سے یہ مسامحت ہوئی ہے۔ نکلسن کی یہ بات دُوررس اثرات و نتائج کی حامل ہے تفصیل تو بعد میں آئی گی ، لیکن یہاں اتنا اشارہ ضروری ہے کہ مدینہ یا بصرہ یہی دو مقامات ایسے ہو سکتے ہیںجہاں حضرت علی کے ساتھ حضرت حسن کا لقاء ممکن ہے۔ مسلم مورخین کے یہاں یہ تصریح بھی ملتی ہے کہ بصرہ میں دونوں کی ملاقات نہیں ہوئی ،یہ بھی ملتاہے کہ حسن کا نشو ونما وادی القری میں ہوا،اب صرف مدینہ رہ جاتا ہے کہ اگر وہاں پیدائش مان لی جائے تو جس مدت تک بھی حسن مدینے میں رہے ہوں ، اس میں لقاء کا امکان رہتا ہے اور اگر یہ کہہ دیا جائے کہ وہ پیدا ہی واد ی القری میں ہوئے ،تو یہ امکان بھی ختم ہوجا تا ہے اور اس طرح احادیث پر اس کا جو اثر مرتب ہوتا ہے اس سے قطع نظر اس اساس پر بھی کاری ضرب پڑتی ہے جس پر تصوف کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے کیونکہ تصوف کے بیشتر سلسلے حسن کے توسط سے علی تک پہنچے ہیں۔ ابن حیان نے لکھا ہے کہ حسن ''ربذہ '' میں پیداہوئے اور مدینے میں ان کانشو ونما ہوا ۔ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کا نشوونما مدینہ میں ہوا اور بعض کہتے ہیں کہ وادی القری میں۔(اخبار القضاة ٢/٣،٤) ''ربذہ'' مدینہ سے حجاز کے راستہ میں تین یوم تقریباً (٨٤ میل ) کی مسافت پر ایک گائوں ہے جس میں حضرت ابو ذر غفاری کی قبر بھی ہے ( معجم البدان ٢٤٩)۔ حضرت عمرنے ربذہ کو اُونٹوں کی چراگاہ کے لیے مخصوص کردیا تھا ۔(معجم ما استعجم ٦٣٣٢) آپ کی والدہ کا نام ''خیرہ'' تھا ١ جو اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی باندی تھیں ٢ ١ خلیفہ ابن خیاط (طبقات ص ٢١٠١٠) نے والدہ کا نام '' حبرہ'' لکھا ہے جو بظاہر خیرہ کی تصحیف ہے اور ابن ِحیان (اخبار القضاة٢/٥ )نے ''صفیہ''لکھاہے ٢ بیشتر تذکرہ نگار یہی لکھتے ہیں لیکن ابن سعد نے (طبقات٧/١٥٦)خود حضرت حسن کا یہ قول بھی نقل کیاہے کہ میرے والدین بنو نجار کے ایک شخص کے غلام تھے، اس نے انصار میں سے بنو سلمہ کی ایک عورت سے شادی کی اور دونوں کو مہر کے طور پر اسے دے دیا ،اس عورت نے دونوں کو آزاد کردیا ۔حضرت حسن کا یہ قول ذکر کرنے کے بعد ابن سعد لکھتے ہیں کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی والدہ اُم سلمہ کی باندی تھیں