ماہنامہ انوار مدینہ لاہورمئی 2002 |
اكستان |
|
اور تکلیف ہوگی۔اگر اس کاکام دوسری جگہ سے ہوسکے تو خیر ورنہ اس کنویں والے سے کہا جائے گا کہ یا تو اس شخص کو اپنے کنویں یا نہر وغیرہ پر آنے کی اس شرط سے اجازت دو کہ نہر وغیرہ کو نہیں توڑے گا ورنہ ا س کو جس قدر پانی کی ضرورت ہے تم خود نکال کر یا نکلوا کر اس کے حوالہ کردوالبتہ پانی لینے والے کو یہ جائز نہیں کہ وہ نہر یا کنویںوالے کی اجازت کے بغیر اپنے کھیت یا باغ کو پانی دے ۔ مسئلہ : اگر ایک شخص دوسرے کے کنویں یا نہر سے کھیت کو پانی دینا چاہے اور وہ کنویں یا نہر والا اس سے کچھ قیمت لے تو مشائخ بلخ نے اس کے جواز کا فتوٰی دیاہے ۔ مسئلہ : دریا ، تالاب اور کنویں وغیرہ سے جو شخص اپنے کسی برتن میں مثل گھڑے مشک وغیرہ کے پانی بھرلے تو اس پانی کا مالک ہو جائے گا۔ اس پانی سے بغیر اس شخص کی اجازت کے کسی کو استعمال کرنا درست نہیں ۔ مسئلہ : لوگوں کے پینے کے لیے جو پانی رکھا ہوجیسے گرمیوں میں راستوں پر پانی رکھ دیتے ہیں اس سے وضو وغسل درست نہیں ہاں اگر زیادہ ہو تو مضائقہ نہیں اور جو پانی وضو کے واسطے رکھا ہو اس میں سے پینا درست ہے ۔ (جاری ہے(