ماہنامہ انوار مدینہ لاہورمئی 2002 |
اكستان |
|
راسی والآخرعند رجلی فقال الذی عند راسی للاخر مابال الرجل قال مطبوب قال ومن طبہ قال لبید بن الا عصم رجل من بنی زریق حلیف لیھود کان منافقا قال وفیم قال فی مشط و مشاقة قال فاین قال فی جف طلعةذکر تحت رعوفة فی بئر ذی اروان قال فاتی البرحتی استخرجہ فقال ھذہ البر التی اریتھا وکان ماء ھا نقاعةالحنا وکان نخلھا رء وس الشیاطین قال فاستخرج قالت فقلت افلا تنشرت فقال امااللّٰہ فقد شفانی واکرہ ان اثیرعلی احد من الناس شرا (بخاری) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک بار رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا (جس کا اثر یہ ہوا کہ آپ خیال کرتے تھے کہ آپ(اپنی )بیویوں سے صحبت کریںمگر کر نہ پاتے تھے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے اور فرمایا اے عائشہ جانتی ہو آج اللہ تعالی نے جس بات کو میں نے اس سے پوچھا تھا اس نے ا س کی مجھے خبر دے دی ہے ۔(اس کی صورت یہ ہوئی کہ )دو فرشتے میرے پاس آئے ایک میرے سرہانے بیٹھا اور دوسرا میرے پیروں کی طرف بیٹھ گیاجو میر ے سرہانے بیٹھا تھا اس نے دوسرے سے پوچھا ان کو کیا تکلیف ہے ۔ دوسرے نے جواب دیا ان پر جادو کیا گیا ہے ۔پہلے نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے ؟اس نے جواب دیا لبیدبن اعصم نے جو قبیلہ بنی زریق کا ایک آدمی ہے اور یہود کا حلیف ہے ۔یہ شخص منافق تھا ۔پہلے نے پوچھا اچھا یہ جادو کس چیز پر کیا ہے ؟اس نے کہا کہ ایک کنگھی او رکنگھی کشیدہ بالوں پر ۔پہلے نے پوچھا تو وہ ٹونا کہاںہے ۔اس نے کہاوہ ایک نر کھجور کے خوشہ کے غلاف میں رکھ کر ذی اروان کنویں کے اندر کے پتھر کے نیچے ہے ۔چنانچہ آپۖ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور اس جادو کو نکالا اور فرمایا یہی کنواں تھا جو مجھ کو دکھایا گیا تھا ۔ اس کا پانی ایسا تھا جیسا مہندی کا پانی سرخ ہوتاہے اور اس کے ارد گرد درختوں پر ا یسی وحشت برستی تھی گویا وہ شیطانوں کے سر ہیں۔حضرت عائشہ کہتی ہیں میںنے عرض کی آپ ۖ نے اس کو کھول (کر لوگوں کو دکھا) کیوں نہیںدیا ۔آپ ۖ نے فرمایا مجھ کو تو اللہ تعالی نے شفاعطافرماہی دی اور اب مجھ کو یہ بات گوارانہیں کہ کسی بھی شخص کے خلاف شراُٹھائوں