۲۔ نبی کریم ﷺ اور صحابۂ کرام سے فعلاً وقولاً اس کے خلاف کچھ منقول نہیں ہے، بعض لوگ جو کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنی داڑھی سے بال نہیں لیتے تھے۔ ان کے پاس سوائے ظن وتخمین اور کچھ نہیں ، بالفاظ دیگر اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
نیز شیخ نے اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ احادیث کے ایسے عمومی معنی کو اختیار کرنا جس کے بعض اجزاء پر عمل در آمد نہ ہو یہ سنت نہیں ہے،بلکہ ساری بدعتوں کی جڑ ہے، کیونکہ اہل بدعت اپنی بدعات وخرافات کو جائز وبرحق ثابت کرنے کے لیے نصوص عامہ ہی کا سہارا لیتے ہیں ، اہل علم کی معلومات کے لیے خط کا مکمل متن پیش ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الی الأخ الفاضل حفظ الرحمن الأعظمی الندوی حفظہ اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
جواباً علیٰ رسالتکم بخصوص ما ورد فی کتابی ’’ الحلال والحرام‘‘ و’’ فقہ السنۃ‘‘ حول مسألۃ الأخذ من اللحیۃ أقول:لا أو افق علی ما جاء فی الکتابین المذکورین لما فیھما من الاطلاق، انما أذھب الی ما أشرتم الیہ من الأخذ مازادعلی القبضۃ وذلک لأمرین:
۱۔ تتابع الأخبار عن السلف صحابۃ و تابعین وأئمۃ مجتھدین وبخاصۃ امام أھل السنۃ أحمد علی الأخذ وفی الصحابۃ وأبوھریرۃ وھما من رواۃ الأمر، باعفاء اللحیۃ، فلوکان الحدیث علی اطلاقہ ماخالفوا اطلاقہ کما یزعم بعض المتأخرین۔
۲۔ عدم ورود ما ینافی ذلک عن النبی ﷺ وأصحابہ فعلاً بلہ قولا، وما یقولہ بعضھم ان النبیﷺ کان لا یأخذ من لحیتہ، ان یظنون الا ظناً وما ھم بمستیقنین، وبعبارۃ أخری لا أصل لذلک روایۃ، وقد یتمسکون بعموم قولہ ﷺ’’ وأعفوا اللحی ‘‘ وقد ثبت لدی یقیناً لاریب فیہ أن الأخذ بالعمومات التی لم یجر العمل بھا أعنی ببعض أجزائھا لیس من السنۃ،بل