فی تخریج أحادیث الحلال والحرام‘‘ میں کوئی نقد نہیں کیا ہے، اس کتاب کے بھی ۱۴۰۵ھ مطابق ۱۹۸۵ء تک تین ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔
اب اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ شیخ نے سیدسابق اور یوسف قرضاوی کی مذکورہ بالا عبارتوں سے صدفی صد متفق ہوکر جمہور کے موقف کی تائید کی ہے۔
دریں اثناء شیخ البانی سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا، میں نے فقہ السنہ اور الحلال والحرام کی مذکورہ عبارتوں کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے ان کو لکھا تھا:
’’ ویبدو من صنیع فضیلتکم فی’’ غایۃ المرام‘‘ و ’’ تمام المنۃ‘‘ أنکم تمیلون الی جواز الأخذ مما زاد علی القبضۃ من اللحیۃ، آمل من فضیلتکم التوضیح حول ھٰذا الموضوع بکلمۃ موجزۃ‘‘
شیخ نے جواب میں جو کچھ تحریر کیا ہے، اس سے ان کے بعض معتقدین ومریدین کے دل ودماغ میں مسئلے سے متعلق گردش کرتے ہوئے شکوک وشبہات کا ازالہ ہوجانا چاہیے، بشرطیکہ ان کے حواس غایت تعصب کی بنا پر ازکار رفتہ نہ ہوگئے ہوں ، بہر کیف شیخ کی تحریر سے مستفاد ہوتا ہے کہ:
ان کے نزدیک داڑھی کی حدِّ شرعی کم از کم ایک مشت ہے، اس سے کم نہیں کرنا چاہیے، البتہ اس سے زائد کاکاٹنا جائز ہے، اس مسلک کو اختیار کرنے کی دو وجہیں بتائیں ۔
۱۔ سلف صالحین یعنی صحابہؓ وتابعین ؒ ائمہ مجتہدینؒ خصوصاً امام السنہ احمدؒ سے کاٹنا منقول ہے، نیز حدیث اعفاء لحیہ مطلق نہیں ہے، اگر مطلق ہوتی تو خوداس حدیث کے راوی ابن عمرؓ وابوہریرہؓ اس کے خلاف عمل نہ کرتے۔