تقریظ بقلم حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی
(صدر شعبۂ تفسیر واستاد حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)
… رسالہ پر نظر ڈالنے کا کسی طرح موقع نکال ہی لیا اور جب دیکھنا شروع کیا تو ختم کیے بغیر نہ رہاگیا اور ختم کرتے وقت بے اختیار جزائے خیر کی دعا نکلی۔ واقعہ یہ ہے کہ آپ نے اس قدر حوالے اور مراجع جمع کردیے ہیں جو اتنے مختصر رسالے میں کم جمع کیے جاتے ہیں ، پھر ہر ایک ماخذ کی مکمل نشاندہی کی ہے۔جو آپ کے وسعتِ مطالعہ اور دیانت علمی کی آئینہ دار ہے۔
’’ فجزاکم اللہ خیرالجزاء‘‘۔
راقم کی نظر میں اگرچہ یہ موضوع ایسا نہ تھا کہ اس پر اتنی محنت کی جائے یا اس کے لیے اتنے کثیر اور قوی دلائل فراہم کیے جائیں ۔(اگرچہ دوسری طرف سے رونما ہونے والے غلو جس کے وہ عادی معلوم ہوتے ہیں ) سے یہ جذبہ پیدا ہوجانا بعید نہیں جو آپ کے اندر پیدا ہوا اور جس نے ایسا قیمتی مواد یکجا فراہم کروادیا گویا اس ’’ شر‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے یہ’’خیر‘‘ظاہر فرمادیا جو لائق تحسین ہے۔ کیونکہ معاملہ اصلاً اولیٰ یا غیر اولیٰ کا ہے۔(کہ داڑھی کو نہ سنوارنا یعنی ایک مشت سے زائد ہونے پر تراشنا زیادہ سے زیادہ خلافِ اولیٰ ہے معصیت وحرام نہیں ) اور آج جب کہ داڑھی کتروانا بلکہ منڈوانا عام فیشن بن گیا ہے اور بہت سے دیندار بھی سنوارنے کی آڑلے کر تقصیر کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ اس زمانے میں داڑھی کو مطلقاً چھوڑنے والے اس جماعت میں بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ ’’ چاہے قلمی طورپر اس کے لیے کتنے مردِ میدان بنتے ہوں ‘‘ تواس مسئلے پر اتنی محنت وقوت کچھ زائد سی چیز معلوم ہوتی ہے۔ بلکہ اس کا خطرہ بھی بعید نہیں ہے کہ تقصیر کے شوقین آپ کی ذکر کردہ بعض عبارات مثلاً ’’ کان یحمل الأمر بالاعفاء علی غیر الحالۃ