شیخ البانی کا نقطۂ نظر
شیخ محمد ناصر الدین البانی ۱؎ جو جماعتِ اہلِ حدیث کے روحِ رواں اور احیاء سنت کے علمبردار تصور کیے جاتے ہیں ، گوکہ انہوں نے عمروبن شعیب والی حدیث کو ضعیف ہی نہیں بلکہ موضوع قرار دیا ہے، ۲؎ تاہم وہ اس مسئلے میں جمہورہی کے ساتھ ہیں ۔
شیخ کے مسلک کی عکاسی ان کی کتاب’’ تمام المنۃ فی التعلیق علی فقہ السنۃ‘‘ سے ہوتی ہے، انہوں نے سید سابق کی عبارت’’ فلا تقصر تقصیراً یکون قریباً من الحلق ولا تترک حتی تفحش‘‘ پر کوئی نقد نہیں کیا ہے، تمام المنۃ کے اب تک تین ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ، ایک آج سے ۳۸ ؍ سال قبل ۱۳۳۷ ھ میں دوسرا ۱۴۰۸ھ میں ، تیسرا ۱۴۰۹ھ میں ،ا گر سیدسابق کی مذکورہ عبارت سے اتفاق نہ ہو تا تو اس طویل عرصے میں ضرور اپنے سہو کا تدارک کرلیتے۔
نیز شیخ البانی نے یوسف قرضاوی کی عبارت’’ ولیس المراد باعفائھا ألا یأخذ منھا شیئا أصلا‘‘۳ ؎ پر اپنی کتاب’’ غایۃ المرام
------------------------------
۱؎ شیخ علوم حدیث پر کافی عبور رکھتے ہیں لیکن جیسا کہ مقولہ ہے ’’لکل جواد کبوۃ ولکل عالم ہفوۃ‘‘ احادیث کی تحقیق میں ان سے تسامحات بھی ہوئے ہیں جن کی نشاندہی اہل علم نے کردی ہے، اس سلسلے میں علامہ حبیب الرحمن الاعظمی کی ’’ ألألبانی شذوذہ وأخطاؤہ‘‘ شیخ محمد سعید ممدوح کی ’’ تنبیہ المسلم الی تعدی الألبانی علی صحیح مسلم‘‘ شیخ حمود بن عبد اللہ التویجری کی ’’ الصارم المشہور علی أہل التبرج والسفور‘‘ اور شیخ اسماعیل بن محمد الانصاری کی’’ اباحۃ التحلی بالذھب المحلق للنساء‘‘ اہمیت کی حامل ہیں ،آخر الذکر کتاب سعودی حکومت کے ادارے دارالافتاء کی طرف سے مفت تقسیم کی جاتی ہے۔
شیخ البانی ۱۹۹۹ء میں اللہ کوپیارے ہوگئے۔
۲؎ دیکھئے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ حدیث نمبر ۲۸۸، وغایۃ المرام حدیث نمبر ۱۱۰۔
۳؎ الحلال والحرام ص ۹۱