کے نزدیک حج وعمرہ کے زمانے میں کٹوانا مستحب ہے، اس کے قائل امام شافعی وغیرہ ہیں ، فریق ثالث جب کبھی داڑھی کے بال بکھرجائیں اور داڑھی ایک مٹھی سے بڑی ہو، اس وقت داڑھی کو مٹھی سے پکڑ کر زیادہ کو کٹوانا جائز ہے، اس کے قائل حسن بصریؒ ،عطاءؒ، قاضی عیاضؒ اور حافظ ابن حضر عسقلانی کا رجحان بھی اس طرف ہے، اور یہی مذہب اکثر علماء کا ہے، بموجب تحریر استاد الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے،چنانچہ شاہ صاحب ممدوح شرح موطا کے حاشیے ۱؎ میں عبداللہ بن عمرؓ کے اثر کے تحت فرماتے ہیں : ’’ وعلیہ اہل العلم‘‘ ۲؎
تیسرا فیصلہ کن فتویٰ:
فتاویٰ ثنائیہ جلد ۲ صفحہ ۱۲۷؍پر مولانا عبد الجبار غزنویؒ کا ایک فتویٰ مرقوم ہے اور اس کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ (مولانا غزنوی) کا یہ فتویٰ اس مسئلے میں قول فیصل کی حیثیت سے دیکھا جائے گا۔
استفتاء کی عبارت:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ داڑھی کو ایک مشت سے کم کرنے والا تارکِ سنت ہے یا نہیں ؟ بینوا تؤجروا۔
اس کے جواب میں مولانا غزنویؒ فرماتے ہیں :
’’ داڑھی اگر قبضہ سے زائد ہو اس کا کتروانا جائز ہے، صحیح بخاری میں ہے: ’’وکان ابن عمرؓ اذا حج أو اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل أخذھا‘‘
اس کے بعد فتح الباری اور موطا امام مالکؒ سے ابن عمرؓ، ابوہریرہؓ اور سالم بن عبد اللہؓ کے آثار بطور شواہد نقل کرکے اس نتیجے پر پہنچے:
’’ اس سے معلوم ہوا کہ شوال او رذی قعدہ اور عشرہ ذی الحجہ تک نہیں
------------------------------
۱؎ دیکھئے المسوی ج ۱ ص ۳۹۱ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ
۲؎ فتاویٰ ثنائیہ ج ۲ ص ۱۲۶، ۱۲۷