تبصرہ پندرہ روزہ تعمیر حیات، لکھنؤ
مولانا حفظ الرحمن صاحب ندوی اعظمی نے احادیث کی روشنی میں بہت سی کتابوں کے حوالوں کے ساتھ داڑھی کی اہمیت اور فضیلت کے موضوع پر ایک قابل عمل وقابل قبول کتاب تیار کردی ہے، جو عوام وخواص سبھی کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہے۔
(تعمیر حیات، لکھنؤ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۹۵ء)
داڑھی کے سلسلے میں مسلمان افراط وتفریط کے شکا ر ہیں ، اس میں توازن واعتدال کی ضرورت ہے اور وہ طریقۂ نبوی سے ملے گا۔ مصنف نے اعفائے لحیہ سے متعلق مرفوع احادیث، صحابہ کرام کے تعامل، ائمہ اربعہ کے مسلک اور علمائے متأخرین کے نقطۂ نظر کو پیش کیا ہے۔ امام غزالی کا قول نقل کیا ہے:’’ داڑھی لمبی ہو تو ایک مشت سے زائد کا کترنا جائز ہے تاکہ حد سے نہ بڑھے‘‘ اور عصر حاضر کے ممتاز عالم دین سید سابق کی کتاب’’ فقہ السنہ‘‘ سے نقل کیا ہے کہ’’ سنن فطرت میں سے ہے داڑھی بڑھانا اورا س کو چھوڑدینا کہ زیادہ ہوجائے یہاں تک کہ وقار کی آئینہ دار ہوجائے ۔ پس اُسے نہ اتنا کتروایاجائے کہ مونڈوانے کے قریب ہوجائے اور نہ ہی اتنا چھوڑدیا جائے کہ وہ خراب لگنے لگے بلکہ متوسط بہتر ہے‘‘۔ اس سلسلے میں ’’ فتح القدیر‘‘ سے مصنف نے عبارت نقل کی ہے اور ائمہ اربعہ وسادات تابعین کوئی بھی مطلق ارسال کے قائل نہ تھے، مصنف نے پورے دلائل وحوالوں کے ساتھ اس بارے میں صحیح اور معتدل مسلک کا ذکر کیا ہے اور اس سلسلے میں جو غلو ہورہا ہے اس کا رد کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
(تعمیر حیات: ۲۵؍ اگست ۲۰۰۳ء)
٭