جواب یوں مذکور ہے:
’ ’ اس بارے میں دوحدیثیں مختلف آئی ہیں ، ایک میں تو فرمایا داڑھی بڑھائو، دوسری میں حضرت کا اپنا فعل ہے،داڑھی کے اردگرد سے بڑھے ہوئے بال کٹالیا کرتے تھے، اس لیے تطبیق یہ ہے کہ ساری رکھنی مستحب ہے، اورایک مشت کے برابر رکھ کر باقی کٹالینا جائز ہے‘‘۔
شیخ الحدیث مولانا شرف الدین دہلوی ؒ نے مذکورہ بالا مدعا ثابت کرنے کے لیے صحیح بخاری اور فتح الباری سے دلیلیں پیش کی ہیں نیز موطا امام مالک والی روایت نقل کی ہے اور ’’ نیل الاوطار‘‘ سے قاضی عیاض ؒ کا قول نقل کرکے رقم طراز ہیں :
’’ حاصل یہ ہے کہ سلف صالح، جمہور صحابہ وتابعین وائمہ مجتہدین کے نزدیک ایک مشت تک داڑھی بڑھنے دینا حلق وقصر وغیرہ سے اس کاتعارض نہ کرنا واجب ہے کہ اس میں اتباع سنت اور مشرکین کی مخالفت ہے اور ایک مشت سے زائد کی اصلاح جائز ہے اور بافراط شعر لحیہ وتشوہ وجہ وصورت، وتشبہ بہ بعض اقوام مشرکین ہندو وسادھو، سکھ وغیرہ جن کا شعار باوجود افراط شعر لحیہ عدم اخذ ہے، قبضہ سے زائد کی اصلاح واجب ہے، ورنہ مشرکین کی موافقت سے خلافِ سنت بلکہ بدعت ثابت ہوگی، جس کا سلف صالحین میں سے کوئی قائل نہیں ‘‘۔۱؎
مولانا تحقیق کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے:
’’ پس افراط شعر کی صورت میں قبضہ سے زائد کی اصلاح واجب ہے، ’’کما تقدم، ہٰذا ھوا الصدق والصواب واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم‘‘۔ ۲؎
دوسرا فتویٰ:
ص ۱۲۳ پر ایک استفتاء ’’داڑھی مسلمان کو کس قدر لمبی رکھنے کا حکم ہے؟‘‘
------------------------------
۱؎ فتاویٰ ثنائیہ ج ۲؍ ص ۱۳۸ ۲؎ فتاویٰ ثنائیہ ج ۲ ص۱۳۹