حرفِ آخر
گذشتہ سطورخصوصاً فتاویٰ ثنائیہ کے فتووں اور شیخ البانی کی تحقیق سے واضح ہوگیا کہ ائمہ اربعہ اورجمہور صحابہ وسلف صالحین مطلق ارسال لحیہ کے وجوب کے قائل نہیں تھے، اور یہ بھی آشکارا ہوگیا کہ کس کا مسلک روایت ودروایت کا جامع ہے اور افراط وتفریط سے یکسر پاک۔
ناظرین آخر میں مایۂ ناز مالکی محدث وفقیہ ابن عبد البر القرطبی(متوفی ۴۶۳ھ) کی درج ذیل فیصلہ کن عبارت پر طائرانہ نظر ڈال لیں جو مسئلہ زیر بحث میں جمہور کی ترجمانی کرتے ہوئے حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔
وفی أخذ ابن عمر من آخر لحیتہ فی الحج دلیل علی جواز الأخذ من اللحیۃ فی غیر الحج لأنہ لو کان غیر جائز ماجاز فی الحج لأنھم أمرواأن یحلقوا أو یقصروا اذا حلوا محلّ حجھم ما نھوا عنہ فی حجھم وابن عمرؓ روی عن النبی ﷺ ’’ أعفوا اللحی‘‘ و ھو أعلم بمعنی ماروی ، وکان المعنی عندہ وعند جمہور العلماء الأخذ من اللحیۃ ما تطایر۔ ۱؎
اورعبد اللہ بن عمر کا حج میں اپنی داڑھی کے نیچے سے بال لینا اس بات پر دلیل ہے کہ غیر حج میں بھی یہ فعل جائز ہے، کیونکہ اگر یہ (ہمہ وقت) ناجائز ہوتا تو حج میں جائز نہ ہوتا، کیونکہ صحابۂ کرام کو تو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ حج سے فارغ ہوکر اپنے بال منڈوادیں یا کتروادیں جس سے ان کو حج میں (احرام کی حالت میں ) روکا گیا تھا، اور عبد اللہ بن عمرؓ نے نبی کریم ﷺ سے ’’ أعفوا اللحی‘‘ روایت کیا ہے وہ اس حدیث کا مطلب خوب جانتے ہیں ، عبد اللہ بن عمرؓ اور جمہور علماء کے نزدیک حدیث کا مفہوم یہی ہے کہ داڑھی سے وہ بال لیے جائیں جو پراگندہ اور لمبے ہوں ۔
سبحانک اللّٰہم وبحمدک أشھد أن لا الہ الا أنت أستغفرک وأتوب الیک۔
------------------------------
۱؎ الاستذکار ۱۳؍ ۱۱۶ دارقتیبہ للطباعۃ والنشر دمشق، بیروت۔