سلف صالحین کا تعامل
خلیفۂ ثانی امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب مطلق ارسال کے قائل نہیں ہیں اسی وجہ سے آپ نے ایک شخص کی بہت لمبی داڑھی کٹواکر چھوٹی کروائی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ابن عبد البر نے نقل کیا ہے کہ ’’أنہ کان یأخذ من لحیتہ ما یلی وجھہ ‘‘ االاستذکار۱۳؍۱۱۶)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بھی اسی کے قائل وفاعل تھے جیسا کہ بخاری وغیرہ نے ان کا اثر نقل کیا ہے، حالانکہ انہوں نے اعفاء لحیہ کی حدیث روایت کی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ بھی اسی کے قائل وفاعل تھے۔ حالانکہ انہوں نے بھی اعفاء لحیہ کی حدیث روایت کی ہے، جیسا کہ مسلم وغیرہ کے حوالہ سے گزری۔
سالم بن عبد اللہ بن عمرؓ بھی اسی کے قائل وفاعل تھے، ان کا اثر موطا امام مالک میں مروی ہے کہ احرام باندھنے سے پہلے وہ داڑھی اور مونچھ کی اصلاح کرتے تھے۔
فقیہ عراق ابراہیم نخعی تابعیؒ (متوفی ۹۶ھ) مطلق ارسال کے قائل نہ تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ کانوا یأخذون من جوانبھا‘‘۱؎ یعنی لوگ داڑھی کے ارد گرد سے کاٹتے تھے۔ عراقی وغیرہ کے بقول ابراہیم نخعی اس قسم کے جملہ سے اصحابِ عبد اللہ بن مسعود مراد لیتے ہیں ، یعنی علقمہ، اسود، ابووائل، حارث بن سوید، عبیدہ سلمانی، مسروق، ربیع بن خثیم، اور سوید بن غفلہ وغیرہ جو اپنے زمانے کے سادات تابعین میں شمار ہوتے تھے۔
مشہور یمنی تابعی طائوس بن کیسان(متوفی۱۰۶ھ) بھی اسی صف میں ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر آدمی اپنی داڑھی چھوڑ کر اس سے کچھ نہ کاٹے اور وہ بہت
------------------------------
۱؎ شرح السنہ للبغوی ۱۲؍۱۰۹ نیز دیکھئے الاستذکار ۱۳؍ ۱۱۶، مطبوعہ دار قتیبہ