اللحی‘‘ کے منافی ہے، کا جواب یوں دیتے ہیں :
الأمر بالاعفاء انما ھو لمخالفۃ المشرکین لأنہم کانوا یحلقونھا ومخالفتھم تحصل بعدم أخذ شیٔ البتۃ أو بأخذ الیسیر الذی فیہ تحسین۔۱؎
اعفاء کا حکم مشرکین کی مخالفت کے لیے ہے کیونکہ وہ داڑھیاں منڈاتے تھے، ان کی مخالفت اس سے بھی ہوگی کہ کچھ بھی بال نہ کاٹا جائے اور اس سے بھی ہوگی کہ معمولی مقدار میں کاٹا جائے جس سے داڑھی خوشنما لگنے لگے۔
امام شافعیؒ کا مسلک
ناصر السنۃ امام شافعیؒ(متوفی ۲۰۴ھ) بھی داڑھی کے مطلق ارسال کے قائل نہیں ، حج وعمرہ کے موقع پر احرام سے نکلنے کے لیے داڑھی اور مونچھ سے بال کاٹنا ان کے نزدیک مستحب ہے، حالانکہ باتفاق علماء داڑھی سے بال کاٹنا اعمالِ حج وعمرہ سے نہیں ہے، خود امام شافعیؒ اس کے معترف ہیں ،فرماتے ہیں :
وأحب الیّ لو أخذ من لحیتہ وشاربیہ حتی یضع من شعرہ شیئاً للہ وان لم یفعل فلا شیٔ علیہ لان النسک انما ہو فی الرأس لا فی اللحیۃ ۔۲؎
اگر اپنی داڑھی اور مونچھوں سے کچھ بال کاٹ کر اللہ کے لیے گرائے تو مجھے پسند ہے اگر ایسا نہ کرے تو کوئی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ اعمال حج وعمرہ کا تعلق تو سر سے ہے نہ کہ داڑھی سے۔
امام شافعی صرف حج وعمرہ کے موقع پر داڑھی میں کاٹ چھانٹ کے قائل
------------------------------
۱ ؎ اکمال اکمال المعلم ۲؍ ۳۹
۲؎ الأم ۲؍۲۱۱