حضور کے متبع تھے ویسے ہی داڑھی کی مقدار قبضہ کے بارے میں حضور ہی کے متبع تھے اور یہ مقدار خود ان کی اختراع کردہ نہیں تھی، اگر حضور کا اس پر عمل نہ دیکھتے تو اسے اپنی سنت نہ ٹھہراتے، پس اور بھی کچھ نہیں تو کم از کم اس حدیث کی رو سے مقدار قبضہ کا سنت صحابی ہونا بلاشک وشبہ ثابت ہوجاتا ہے‘‘۔۱؎
یہ صحیح ہے کہ صحابہ سے لغزش ممکن تھی، جیسا کہ امام الحرمین عبد الملک جوینیؒ(متوفی ۴۷۸)نے لکھا ہے:
’’لایعصم واحد من الصحابۃ عن زلل‘‘۲؎
کوئی صحابی لغزش سے معصوم نہیں ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ کسی صحابی پر دیدہ دلیری کے ساتھ مخالفت رسول کا الزام چسپاں کرکے اپنا مدعا ثابت کیا جائے۔
رہا مسئلہ، منقطع اور بلاغات کا تو امام مالکؒ اور امام ابوحنیفہؒ نیز اکثر تابعین کے نزدیک مرسل اور منقطع روایات عمل کے لیے حجت ہیں ، خطیب بغدادیؒ نے بھی لکھا ہے کہ اہل عراق مراسیل اور بلاغات کو حجت مانتے ہیں ۔
مزید دلائل فتاویٰ ثنائیہ کی روشنی میں
فتاویٰ ثنائیہ جماعت اہل حدیث کی اہم اور معتبر کتاب تسلیم کی جاتی ہے،اس کتاب میں داڑھی سے متعلق کئی فتوے شامل کئے گئے ہیں ، جو امام ابوحنیفہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ وغیرہ کے مسلک ہی کے موافق ہیں ، لیجئے ذیل میں تین فتوے ملاحظہ فرمائیں ۔
پہلا فتویٰ:
فتاویٰ ثنائیہ ج ۲؍ص ۱۳۶؍پر داڑھی سے متعلق ایک استفتاء ہے جس کا
------------------------------
۱؎ داڑھی کی شرعی حیثیت ص ۶۲،۶۳ مطبوعہ دار الاشاعت، کراچی
۲؎ کتاب الارشادإلی قواطع الادلہ ص ۳۶۶