تبصرہ ماہنامہ الفاروق، کراچی
داڑھی تمام انبیاء کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور مرد کی شناخت ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس شعار کو اپنانے کے لیے اپنی امت کو واضح ہدایات دی ہیں ، اور ان کی روشنی میں جمہور علمائے امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور مونڈنا حرام ہے۔
لیکن جیساکہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ کسی بھی چیز کے متعلق اعتدال سے ہٹ کر افراط وتفریط کی راہ اپنا لی جاتی ہے،ایسے ہی داڑھی کے بارے میں بھی احادیث صحیحہ اور جمہور علماء کے اختیار کردہ مسلک سے ہٹ کر ہمارے یہاں افراط وتفریط پر مشتمل دو مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ، ایک نظریہ تو وہ ہے جو ایک غیر مسلم قوم کے تمدن سے مرعوب ہوکر اپنایا گیا ہے، اس نظریے کاحامل وہ طبقہ ہے جو غلامی کے اثرات میں بری طرح جکڑا ہوا ہے، مسلمانوں کے اپنے تہذیب وتمدن کو اپنانے کے معاملے میں وہ شدید احساس کمتری میں مبتلا ہے، چنانچہ داڑھی کے منڈوانے یا کتروانے کو نہ صرف یہ کہ وہ معصیت ہی نہیں سمجھتا بلکہ داڑھی رکھنے کو باعث ننگ اور منڈوانے کو قابل فخر سمجھتا ہے، اسی طبقے میں ان حضرات کو بھی شمار کرلیں جو اسلام کا لیبل اترجانے کے خوف سے داڑھی مکمل مونڈتے تو نہیں البتہ استشراقیت زدہ اجتہادی بصیرت کی آڑ لیکر داڑھی کی اتنی مقدار گردانتے ہیں ، جو انہیں ’’ ملا‘‘ اور ’’ مسٹر‘‘ کے بین بین ایک تیسری جنس کا عنوان دے سکتے ہیں ۔
اس کے مقابلے دوسرا طبقہ وہ ہے جو داڑھی کے ایک مشت سے لمبی ہوجانے پر اسے اصلاح کے طورپر کسی قدر کاٹنا بھی درست نہیں سمجھتا، ان کے نزدیک داڑھی خواہ کتنی لمبی ہوجائے، اسے بغرض اصلاح کترنا بھی جائز نہیں ، ان