تبصرہ ماہنامہ اشراق، لاہور
بے داڑھی مسلمان کا تصور، مغربی علم وتہذیب کے غلبے کے بعد وجود میں آیا ہے، اس سے پہلے اس بات پر تو بحث ہوجاتی تھی کہ اس کی مقدار کیا ہو، لیکن صفا چٹ چہرے نسوانیت ہی کی علامت سمجھے جاتے تھے،زیر تبصرہ کتاب اس نظریہ کی بنیاد پر لکھی گئی ہے کہ داڑھی انبیاء کرام کی سنت ، مسلمانوں کا قومی شعار اور مرد کی شناخت ہے اور اس کی تراش خراش جائز نہیں ، بلکہ پسندیدہ ہے۔
یہ کتاب اصلاً اس موقف کی تردید میں تصنیف کی گئی ہے کہ سلف صالحین داڑھی کے مطلق ارسال کے قائل تھے اور عامل بھی، نیز اصلاح کی غرض سے اس میں تراش خراش کا عمل کسی بھی حدیث میں بیان نہیں ہوا اور یہ کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا ایک مشت سے زائد داڑھی کا تراشنا درست عمل نہیں تھا اور وہ رسول اللہ ﷺ کے جس فرمان کے تحت ایسا کرتے تھے، اسے سمجھنے میں ان سے غلطی ہوئی۔
مصنف نے صحابہ کرام میں سے حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کی یہ رائے بیان کی ہے کہ داڑھی کے مطلق ارسال کے قائل نہیں تھے، اس کے برعکس ان سے داڑھی میں تراش خراش کا عمل صادر ہوا ہے، تابعین میں سے ابراہیم نخعیؒ طائوس بن کیسانؒ، محمد بن سیرینؒ، حسن بصریؒ اور شعبی سے بھی یہ ثابت ہے کہ داڑھی کے مطلق ارسال کے قائل نہیں تھے۔
مصنف نے ائمہ اربعہ اور جمہور فقہا کا بھی یہ موقف پیش کیا ہے کہ وہ داڑھی کی تراش خراش کوسنت کے خلاف نہیں سمجھتے تھے، مصنف نے مخالف نقطۂ نظر کے حاملین کا یہ دعویٰ غلط قرار دیا ہے کہ تراش خراش کے حق میں کوئی ضعیف سے ضعیف حدیث بھی روایت نہیں ہوئی۔ اس ضمن میں انہوں نے مرفوع، موقوف اور مرسل روایات نقل کی ہیں ۔