کتراتے تھے، باقی مہینوں میں قبضہ سے اگر زائد ہوجاتی تھی تو کتراتے تھے، سبب کترانے کا طول داڑھی کا ہے نہ نسک(اعمال حج) کیونکہ ’’ أخذمن اللحیۃ‘‘ (داڑھی کا کٹانا) کسی اہل علم کے نزدیک نسک سے نہیں ہے، سر کے بالوں کا حلق اور قصربلاشک نسک سے ہے، زیادہ طول لحیہ بعض علماء مکروہ لکھتے ہیں ۔ ۱؎ کالقاضی عیاض وغیرہ، مگر حدیث صحیح ’’ أعفوا اللحی‘‘ سے ثابت ہے۔ مکروہ نہیں ہے، اور قبضہ سے زائد کترانا منافی اعفاء کا نہیں ہے، اگرچہ کامل اعفاء طول میں ہے‘‘۔ ۲؎
اس کے بعد الاستذکار لابن عبد البر سے ایک روایت نقل کرکے اپنا مذکورہ بالا مدعا ثابت کیا ہے۔
فتاویٰ ثنائیہ کے فتووں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ جماعت کے بزرگوں کے فتوے عام طورسے جمہور کے مسلک کے مطابق ہیں ، اور جماعت سے وابستہ علماء وعوام نے اسی کو اختیار کیا ہے،جس کا اعتراف ایک مؤلف کی زبانی یوں کیا گیاہے:
’’ اورآج بھی تقصیر لحیہ کا مسئلہ عام طریقے سے حنفی مذہب میں پایا جاتاہے، اگرچہ عام عامل بالکتاب والسنۃ کے علماء اور عوام میں بھی یہ مسئلہ صحیح سمجھاجاتا ہے‘‘۔۳؎
------------------------------
۱؎ امام مالک زیادہ طول لحیہ کو مکروہ تصور کرتے ہیں جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے۔
۲؎ فتاویٰ ثنائیہ ج ۲، صفحہ ۱۲۷، ۱۳۰
۳؎ السنۃ الصحیحۃ فی مسئلۃ اللحیۃ ص ۸۸ ناشر محمد سعید باقرین