کے جواب میں مرقوم ہے:
’’ حدیث میں آیا ہے داڑھی بڑھائو، جس قدر خود بڑھے، ہاتھ کے ایک قبضے کے برابر رکھ کر زائد کٹوادینا جائز ہے،آنحضرت ﷺ کی داڑھی مبارک قدرتی گول تھی، تاہم اطراف وجوانب طول وعرض سے کسی قدر کاٹ چھانٹ کردیتے تھے‘‘۔ ۱؎
مولانا عبدالوہاب آرویؒ نے جو محتاج تعارف نہیں اس موضوع پر عالمانہ تشریحی نوٹ قلمبند کیا ہے اور اعفاء لحیہ سے متعلق احادیث نقل کرکے ترجمہ کیا ہے، اور عمل صحابہؓ سے متعلق ابن حجرؒ کی شرح نخبۃ الفکر اور سیوطی کی تدریب الراوی سے عبارتیں نقل کرکے ان کا خلاصہ یوں پیش کیاہے:
’’ دونوں عبارتوں کا خلاصہ ترجمہ یہ ہے کہ جب کسی صحابی سے کوئی ایسا امر ثابت ہو جس کی بنا عموماً صرف عقل ہی پر نہ ہوا کرتی ہواورنہ اس میں اجتہاد کو دخل ہے، اور صحابی کی عادت اسرائیلیات روایت کرنے کی بھی نہیں ہے تو وہ امر حدیث مرفوع کے حکم میں ہوتا ہے‘‘۔ ۲؎
اس کے بعد عبد اللہ بن عمر کا اثر صحیح بخاری اور موطا سے نقل کرکے ترجمہ کیا ہے اور حدیث ابن عمر اور ان کے عمل کے تضاد کی اس تطبیق کو جو ابن حجرنے کی ہے نقل کیا ہے۔
پھر اس کے بعد تنبیہ کے طورپر تحریر کرتے ہوئے محدثین کا اختلاف نقل کیا ہے اور یہ فیصلہ سنایا ہے کہ مٹھی سے زیادہ کا کٹوانا اکثر علماء کا مذہب ہے:
’’ اس فیصلہ میں حضرات محدثین کرام میں اختلاف ہے، فریق اول کے نزدیک کسی حالت میں کٹوانا جائز نہیں ہے اور اس کے بہت تھوڑے لوگ قائل ہیں انہیں میں سے امام غزالیؒ ہیں اور امام نوویؒ کا رجحان بھی یہی ہے، فریق ثانی
------------------------------
۱؎ فتاویٰ ثنائیہ ج ۲ ص ۱۲۳
۲؎ فتاویٰ ثنائیہ ج۲، ص ۱۲۵