عمر بن ہارون کے علاوہ دوسرے نے بھی اسامہ سے یہ حدیث روایت کی ہے۔
اس کا مطلب یہی ہوا کہ عمر بن ہارون کا اسامہ سے روایت کرنے میں ایک متابع ہے، جس کی وجہ سے تفرد کالعدم ہوگیا، اور اصول حدیث کی روے سے ضعیف حدیث جب دوسرے طریق سے بھی آئے خواہ وہ طریق ضعیف ہی کیوں نہ ہو تو تقویت حاصل کرکے حسن کا درجہ حاصل کرلیتی ہے، ابن حجر اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
واذا جاء الخبر من طریقین کل منھما ضعیف قوی أحد الطریقین بالآخر۔۱؎
جب خبر دو طریق سے آئے اور ان میں سے ہر ایک ضعیف ہو تو ایک کو دوسرے سے مل کر تقویت حاصل ہوجاتی ہے۔ نیز دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں :
ان الحدیث اذا تعددت طرقہ یقوی بعضھما ببعض واذا قوی کیف بحسن أن یطلق علیہ أنہ مختلق۔۲؎
حدیث جب کئی طریق سے آئے تو بعض کو بعض سے تقویت حاصل ہوجاتی ہے اور جب تقویت حاصل ہوگئی تو ایسی حدیث کو جعلی او رموضوع قرار دینا کیسے زیب دے گا۔
بعض اہل قلم زیر بحث حدیث کو ابن الجوزی اور البانی کی تقلید میں (حالانکہ دونوں مطلق ارسال لحیہ کے قائل نہیں )موضوع قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں اور اسے افسانہ جیسے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں جب کہ محققین اہل فن کے نزدیک جامع ترمذی میں کوئی حدیث موضوع نہیں ہے، ابن الجوزی نے جامع
------------------------------
۱ ، ۲؎ اجوبۃ الحافظ ابن حجر العسقلانی عن احادیث المصابیح ،ص ۱۷۸۳،۱۷۷۸(مع المشکوٰۃ)