ہے، جیسا کہ عراقی نے لکھا ہے۔۱؎
امام بخاری کے علاوہ قتیبہ نے بھی اس کی مدح سرائی ہے اور ابوعاصم کہتے ہیں ’’ عمر عندنا أحسن أخذاً للحدیث من ابن المبارک‘‘ ہاں اکثر ائمہ فن کے جرح کرنے کی وجہ سے اسے ضعیف کہہ سکتے ہیں لیکن ضعیف کا متروک الحدیث کا ہونا لازمی نہیں ، نیز کسی کو متروک قرار دینے کے لیے تمام ائمہ فن کا اتفاق بھی ضروری ہے، ابن الصلاح اپنی کتاب علوم الحدیث میں اس سے متعلق ایک ضابطہ نقل کرتے ہیں کہ:
لا یترک حدیث رجل حتی یجتمع الجمیع علی ترک حدیثہ قد یقال فلان ضعیف فأما أن یقال فلان متروک فلا، الا أن یجمع الجمیع علی ترک حدیثہ۔۲؎
کسی شخص کی حدیث ترک نہیں کی جائیگی۔ یہاں تک کہ اس پر سب کا اتفاق ہوجائے، یہ کہا جاسکتا ہے کہ فلاں ضعیف ہے لیکن یہ کہا جائے کہ فلاں متروک ہے، تو ایسا نہیں کہا جاسکتا ہے جب تک کہ اس پر سب کا اتفاق نہ ہوجائے۔
مذکورہ قاعدے کومد نظر رکھتے ہوئے عمر بن ہارون کو متروک کہنا زیب نہیں دیتا، کیونکہ امام بخاری وغیرہ نے اسے متروک الحدیث قرار نہیں دیا ہے، البتہ امام بخاری نے عمر بن ہارون کو زیر بحث حدیث کی روایت میں منفرد قرار دیا ہے، لیکن ابن عدی کی تحقیق اس سے مختلف ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں :
وقد روی ھذا عن اسامۃ غیر عمر بن ہارون۔۳؎
------------------------------
۱؎ ملاحظہ ہو التقیید والایضاح ص ۱۳۶
۲؎ علوم الحدیث ص ۱۳۶
۳؎ الکامل فی ضعفاء الرجال ۵؍ ۱۶۸۹