ترمذی کی جن ۲۳؍ احادیث کو موضوع قرار یا ہے، حافظ سیوطی نے اپنی کتاب ’’القول الحسن فی الذب عن السنن‘‘ میں ان کا دفاع کیا ہے، حافظ سیوطی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے صاحب تحفۃ الاحوذی مقدمہ میں ’’ الفصل السادس فی بیان أنہ لیس فی جامع الترمذی حدیث موضوع‘‘ کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں :
والتحقیق أنھا لیست بموضوعۃ۔۱؎
تحقیق یہ ہے کہ وہ احادیث موضوع نہیں ہیں ۔
اس لیے جو بات تحقیق سے پر ے ہے وہ قابل توجہ نہیں ہے، ویسے ابن الجوزی کا محدثین میں شہرۂ عام ہے کہ کسی حدیث پر نسخ یا وضع کا حکم لگانے میں بڑے جرأتمندواقع ہوئے ہیں ، ابن الجوزی کے مذکورہ اسلوب تحقیق سے محدثین نے عدم موافقت کا اظہار کیاہے۔ ابن الصلاح ،نووی، زین الدین عراقی، بدرالدین بن جماعہ ،صلاح الدین علائی، زرکشی اور مزی وغیرہ نے ابن الجوزی پر جو نکتہ چینی کی ہے اس کی ایک جھلک سیوطی کی کتاب’’ نشر العلمین المنیفین‘‘ میں اہل علم دیکھ سکتے ہیں ۔ ۲؎
رہا اعتراض متن حدیث پر کہ وہ حدیث’’ أعفوا الحی‘‘ کے منافی ہے تو اس کے جوابات صاحب فتح القدیر ابن الہمام ،محمد بن خلیفہ وشتانی مالکی، ابن حجر عسقلانی، علامہ طیبی، بشمول تمام شارحین المصابیح ،عبد الرؤف مناوی اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی زبانی گزرچکے ہیں ، جو طالب حق کے لیے انشاء اللہ کافی ہیں ۔
------------------------------
۱؎ مقدمہ تحفۃ الاحوذی ص ۱۸۰
۱؎ ملاحظہ ہو الرسائل التسع للسیوطی ص ۲۱۶، ۲۲۰