وقد احتج أکثر أھل الحدیث بحدیثہ۔ ۱؎
اکثر محدثین نے ان کی حدیث کو حجت ماناہے۔
محمد بن علان صدیقی شافعی(متوفی ۱۰۵۷ھ) لکھتے ہیں :
وقد اختلف الحفاظ فی الاحتجاج بنسخۃ عمروبن شعیب عن أبیہ عن جدہ والراجح الاحتجاج بھا مطلقاً۔۲؎
حفاظ حدیث نے عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ کے نسخہ میں اختلاف کیا ہے، راجح اس سے مطلقاً حجت پکڑنا ہے۔
ابن عبد الہادی حنبلی (متوفی ۷۴۴ھ) کی رائے بھی کوئی مختلف نہیں ہے چنانچہ وہ رقم طراز ہیں :
ھو ثقۃ محتج بہ عند الجمہور۔۳؎
ابن القیم حنبلی (متوفی ۷۵۱ھ) فرماتے ہیں :
الجمہور یحتجون بہ وقد احتج بہ الشافعی فی غیر موضع واحتج بہ الأمۃ کلھم فی الدیات۔۴؎
جمہور ان سے استدلال کرتے ہیں شافعیؒ نے متعدد مواقع پر ان سے استدلال کیا ہے اور دیت کے مسائل میں تو سارے ائمہ نے انہیں حجت مانا ہے۔
رہا مسئلہ عمر بن ہارون(متوفی ۱۹۴ھ) کا متروک ہونا تو امام نسائی وغیرہ نے ایسا کہا ہے یہ فیصلہ جمہور اہل فن کا نہیں ہے، بقول ترمذی امام بخاری اس راوی کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے اور انہوں نے اس کی توثیق کرتے ہوئے ’’مقارب الحدیث‘‘ کہا ہے اور لفظ توثیق کے الفاظ میں چوتھے درجہ پر آتا
------------------------------
۱؎ علوم الحدیث لابن الصلاح مع شرح التقیید والایضاح ص ۳۰۳، مطبوعہ مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ
۲؎ دلیل الفالحین ۲؍۱۳۳
۳؎ المحرر فی الحدیث ۲؍۵۴۸
۴؎ تہذیب الامام ابن قیم الجوزیہ ۶؍ ۳۷۴