کو ’’ بہت ضعیف‘‘ کہہ کر کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔۱؎
حافظ ابن حجر عسقلانی ’’ تہذیب التہذیب‘‘ میں عمرو بن شعیب کے بارے میں امام بخاری کا قول نقل کرتے ہیں :
رأیت أحمد بن حنبلؒ وعلی بن المدینی واسحاق بن راھویہ وأبا عبیدۃ وعامۃ أصحابنا یحتجون بحدیث عمروبن شعیب عن أبیہ عن جدہ، ما ترکہ أحد من المسلمین قال البخاری: من الناس بعدہم۔۲؎
میں نے احمد بن حنبلؒ ،علی بن المدینی، اسحاق بن راہویہ، ابو عبیدہ اور اپنے عام اصحاب کو دیکھا کہ وہ عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ کی سند والی حدیث کو حجت مانتے ہیں ، اس کو کسی مسلمان نے ترک نہیں کیا۔ امام بخاری مزید کہتے ہیں کہ بھلا ان کے بعد کون لوگ ہیں ( جن کا قول ان کے مقابلے میں قابل اعتناء ہو)
امام ذہبی (متوفی ۷۴۸ھ) نے عمروبن شعیب کی سند کو حسن کی اعلیٰ درجہ کی سند قرار دیا ہے، چنانچہ وہ رقم طراز ہیں :
فأعلی مراتب الحسن بھز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ وعمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ۔۳؎
حسن کے اعلیٰ درجہ کی سند بہزبن حکیم عن أبیہ عن جدہ اور عمروبن شعیب عن أبیہ عن جدہ ہے۔
انہی مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر اکثر محدثین نے ان کی حدیث کو حجت مانا ہے، اصول حدیث کے امام ابن الصلاح (متوفی۶۴۳ھ) اس حقیقت کو یوں واشگاف کرتے ہیں :
------------------------------
۱؎ دیکھیے التاریخ الکبیر للبخاری ۶؍۳۴۲، ومیزان الاعتدال للذہبی ۳؍ ۲۶۳
۲؎ تہذیب التہذیب ۸؍۴۴ دا ر الفکر
۳؎ الموقظۃ فی علم مصطلح الحدیث للامام الذہبی ص ۳۲ مطبوعہ مکتب المطبوعات الاسلامیہ حلب