(فعل ابن عمروابوہریرہ میں )مذکورہے، خصوصاً جس نے یہ کیا ہے اسی نے حضور سے (اعفاء لحیہ والی) روایت بھی نقل کی ہے۔
ابن حجر کی تحقیق کے مطابق ابن عمر نے اپنے فعل کو صرف حج وعمرہ پر خاص نہیں کیا ہے بلکہ عام حالات پر محمول کیا ہے کہ جب بھی داڑھی بڑی ہو کر بدنما لگے اس میں معمولی کاٹ چھانٹ ہوسکتی ہے۔
الذی یظہر أن ابن عمر کان لا یخص ھذا التخصیص بالنسک بل کان یحمل الأمر بالاعفاء علی غیر الحالۃ التی تتشوہ فیھا الصورۃ بافراط طول شعر اللحیۃ أو عرضہ۔ ۱؎
ظاہر یہ ہے کہ ابن عمرؓ اس فعل کو اعمال حج کے ساتھ خاص نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ داڑھی کے بڑھانے کے حکم کو اس حالت کے علاوہ پر محمول کرتے تھے کہ داڑھی کے طول وعرض میں زیادہ ہونے سے صورت بھدی اور بدنما لگے۔
نووی بھی مطلق ارسال کے قائل نہیں ہیں ، نووی کے قول’’ والمختار ترکھا علی حالھا‘‘ پر ابن حجر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
وکأن مرادہ بذلک فی غیر النسک لأن الشافعی نص علی اسحبابہ فیہ۔۲؎
نووی کی مراد اس سے حج وعمرہ کو چھوڑ کر ہوگی، اس لیے کہ امام شافعی نے حج وعمرہ میں تقصیر لحیہ کو مستحب کہا ہے۔
ابن حجر کا اشارہ امام شافعی کے اس قول کی طرف ہے جو امام شافعی کی کتاب’’ الأم‘‘ سے اس سے پہلے نقل کیا گیا ہے۔
اس سے واضح ہوگیا کہ نووی بھی مطلق ارسال کے قائل نہیں ہیں اور اپنے
------------------------------
۱؎ فتح الباری ۱۰؍۳۵۰
۱؎ فتح الباری ۱۰؍۳۵۰