منڈانے کو مباح قرار دیا ہے،مصری علماء کا عموماً یہی رجحان ہے، مصر کے مشہور عالم وسابق شیخ الازھر محمود شلتوت مرحوم چند قدم آگے بڑھتے ہوئے فرماگئے ہیں ’’ کہ چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ یعنی جس معاشرے میں داڑھی کو پسندیدہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہاں داڑھی رکھنی چاہیے، ورنہ نہیں ۔۱؎
سابق مفتی اعظم اور شیخ الازھر جاد الحق علی جاد الحق نے بھی داڑھی منڈانے کو مباح قرار دیا تھا۔ جب وہ مصر کے مفتی اعظم تھے، مصر کے مشہور فقیہ عطیہ صقر نے بھی اسی قسم کا فتویٰ دیا ہے، حالانکہ علمائے محققین نے داڑھی منڈے کو فاسق اور مردود الشہادۃ لکھا ہے، اس کو سلام کرنے اور اس کے سلام کا جواب دینے سے منع کیا ہے،بلکہ جو کم از کم ایک مشت داڑھی رکھنے کی سنیت کا منکر ہو اس کو کافر قرار دیا ہے۔۲؎ جہاں تک فرنچ اور خشخشی داڑھی کا تعلق ہے تو اس کے غیر شرعی ہونے میں بھی اتفاق ہے۔
فتح القدیر میں ہے:
وأما الأخذ منھا وھی دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد۔۳؎
اوررہا داڑھی سے کاٹنا جب کہ ایک مشت سے کم ہو جیسا کہ بعض مغاربہ اور مخنث قسم کے لوگ کرتے ہیں تو اسے کسی نے جائز نہیں قرار دیا ہے۔
بعض فقہاء مطلق ارسال لحیہ کے وجوب کے قائل ہیں لیکن جمہور اس کے قائل نہیں جیسا کہ اگلی سطروں سے بخوبی واضح ہوجائے گا۔
٭
------------------------------
۱؎ ملاحظہ کیجئے الفتاویٰ للامام الاکبر محمود شلتوت ص۲۲۹، مطبوعہ دارالشروق
۲؎ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو احکام الحجیٰ فی احکام اللحیٰ از مولانا سلامت اللہ اعظمی،
مطبوعہ ۱۳۲۲ھ
۳؎ فتح القدیر جلد ۲،ص۷۷