لمبی چوڑی ہوجائے تو لوگ اس کا مذاق اڑائیں گے۔ ۱؎
محمد بن سیرین بصری تابعی(متوفی ۱۱۰ھ) جو اپنے وقت کے علوم دینیہ کے امام تھے یہ بھی مطلق ارسال کے قائل نہ تھے۔
حسن بصری تابعی(متوفی۱۱۰ھ) جن کو امام ذہبی نے شیخ الاسلام کا خطاب دیا ہے یہ بھی جمہور کے ساتھ ہیں ، جیسا کہ ابن حجرؒ نے طبری کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔
مشہور تابعی شعبی(متوفی ۱۰۵ھ) بھی جمہور کے ساتھ ہیں بلکہ انہوں نے کسی قدر کاٹنے کو مستحسن کہا ہے۔
ائمہ اربعہ میں سے کوئی بھی مطلق ارسال کے وجوب کا قائل نہیں ہے، امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک ایک مشت سے زیادہ ہوجانے پر زائد کاکاٹ لینا جائز اور مستحب ہے، بلکہ امام احمدؒ تو کاٹنے کا فتویٰ بھی دیتے تھے اور خود اس پر عمل بھی کرتے تھے۔بالفاظ دیگر’’ قائل وفاعل‘‘ تھے امام مالکؒ کے نزدیک بہت لمبی ہوجانے پرکاٹنا ہے،لمبائی کی حد ان کے نزدیک مقرر نہیں ہے ، امام شافعی کے نزدیک حج وعمرہ میں احرام سے نکلنے کے لیے کاٹناہے، حالانکہ داڑھی کاکاٹنا کسی اہل علم کے نزدیک اعمال حج وعمرہ سے نہیں ہے۔
چند فقہاء سے مطلق ارسال کا قول بھی منقول ہے جن میں سے قتادہ تابعی، نووی اور غزالی کا نام لیا جاتا ہے ، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ لوگ بھی مطلق ارسال کے قائل نہیں تھے۔امام غزالی کا قول احیاء علوم الدین اورکمیائے سعادت سے آگے نکل کیا جائے گا، جس کے سے ثابت ہوگا کہ وہ جمہور کے ساتھ ہیں اور نووی بھی بقول ابن حجر ارسال کے قائل نہیں تھے ۔ رہے قتادہ تابعی تو ان کے بارے میں ابن لعربی نے جو نقل کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی مطلق ارسال کے قائل نہیں تھے۔
------------------------------
۱؎ ارشاد الساری للقسطلانی ۸؍۴۶۴