ٹوکن دے کر زمین کی خرید و فروخت اور تجارتی انعامی اسکیمیں |
یک علمی |
|
’’ ولکن صرح عدۃٌ من الفقہاء بأنہ قد یجوز العمل أو الإفتاء بروایۃ ضعیفۃ أو قول مرجوح لضرورۃ اقتضت ذلک ‘‘ ۔ (أصول الإفتاء وآدابہ :ص/۱۹۸) حالانکہ زمین کا کاروبار کرنے والوں سے جب ٹوکن دے کر معاملہ کے متعلق دریافت کیا گیا، تو سب نے یہی کہا کہ محض ٹوکن کی صورت میں جو معاملہ ہوتا ہے ،وہ قطعی عقد نہیں ہوتا بلکہ اس کی حقیقت محض ایک معاہدہ کی ہے ، جسے بائع اور مشتری مدت پوری ہونے پر قانونی طور پرپورا کرنے کے مکلف وپابند ہوتے ہیں، تو جب یہ بیع، بیعِ تام ہی نہیں، تواس صورت میں اختلاف شیخین وامام محمد رحمہم اللہ کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوگا۔نوٹ :یہ تمام باتیں اپنی ناقص عقل وفہم کے باوجود اس امید کے ساتھ لکھی گئیںکہ علماء اور اربابِ افتاء ان پر غور وفکر فرمائیں گے، اور بیع عقار کی اس صورت میں امت کے ابتلائے عام کی وجہ سے جس درد وفکر میں ڈوب کر یہ سطریں لکھی گئیں انہیں اسی تناظر میں دیکھیں گے!! واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واحکم